تمرین
۱۔انسان کے فردی اور اجتماعی حالات وکردار کے چند نمونے جو اس کے مختار ہونے کی علامت ہیں ذکر کریں؟
۲۔مفہوم اختیار کے استعمال کے چار موارد کی وضاحت کریں؟
۳۔(امر بین الامرین) سے مراد کیا ہے جو اہل بیت علیہم السلام اور ان کے ماننے والوں کے نظریہ کو بیان کرتا ہے؟
۴۔بعض لوگوں نے خدا وند عالم کے علم غیب سے متعلق شبۂ جبر کے جواب میں کہا ہے کہ: جس طرح بہت ہی صمیمی اور گہرے دوست کی اپنے دوست کے آئندہ کاموں کے سلسلہ میں پیشن گوئی اس کے دوست کے مجبور ہونے کا سبب نہیں بنتے اسی طرح خداوند عالم کا علم غیب بھی انسان کے مجبور ہونے کا سبب نہیں ہوتا ہے. آپ کی نظر میں کیا یہ جواب متقن اور قانع کرنے والا ہے؟
۵۔ کیا انسان کے افعال میں خدا کو فعّال سمجھنا اس بات کا مستلزم نہیں ہے کہ ہم انسان کے برے کاموں، تمام گناہوں اور ظلم کو اﷲکی طرف نسبت دیں؟اور کیوں؟
۶۔ کیا آیة شریفہ (ومارمیت ذ رمیت ولکن اﷲ رمی) عقیدۂ جبر کی تائید نہیں کررہی ہے؟ اور کیوں؟
۷۔انسان کا مختار ہونا ،انسانی حوادث کے قانون مند ہونے سے کس طرح سازگار ہے؟
۸۔ وہ اختیار جو حقوقی اور فقہی مباحث میں تکلیف ، ثواب اور عقاب کے شرائط میں سے ہے اور وہ اختیار جو کلامی وفلسفی اور انسان شناسی کے مباحث میں مورد نظر ہے ان دونوں کے درمیان کیا نسبت ہے؟
۹۔ اختیاری کاموں کے سلسلہ میں مندرجہ ذیل توضیحات میں سے کون سی توضیح صحیح ہے؟
اختیاری فعل وہ فعل ہے جو انسان کے قصد کے تحت ہو۔اور
(الف) اچانک ظاہرہوتا ہے اور انجام پاتاہے۔
(ب) صاحب علت ہے اور انجام پاتا ہے۔