12%

اگر یہ دو مسئلے حل ہوجا ئیں اور انسان اس نتیجہ پر پہونچ جائے کہ موت سے نابود نہیں ہوتا ہے اور اس کی ایک دائمی زندگی ہے نیز اسکا حقیقی کمال قرب الہٰی ہے اور اس کے لئے کوئی حد نہیں ہے تو معیار انتخاب واضح ہوجائے گا جو چیز انسان کو اس دائمی کمال تک پہونچائے اسے فوقیت دیتے ہوئے اسی کے مطابق عمل انجام دیا جائے یہی عام معیار ہے لیکن رہی یہ بات کہ کون سی خواہش کن شرائط کے ساتھ اس نقش کو انجام دے گی اور کون سی حرکت ہمیں اس دائمی اور بے انتہا کمال سے نزدیک یا دور کرتی ہے ،ہمیں اس راہ کو وحی کے ذریعہ دریافت کرناہوگااس لئے کہ وحی کی معرفت وہ ہے جو اس سلسلہ میں اساسی اور بنیادی رول ادا کرے گی لہٰذا سب سے پہلے مسئلہ مبدأومعاد کو حل کرنا چاہیئے اور اسکے بعد وحی ونبوت کو بیان کرنا چاہئے تاکہ حکیمانہ اور معقول انتخاب واضح ہوجائے۔ اس نقطۂ نظر میں انتخاب کو سب سے زیادہ اور پایدار لذت اور سب سے زیادہ ایجاد کمال کے معیاروں کی مدد سے انجام دیا جا سکتا ہے انسان کی پوری زندگی کے مشخص ومعین نہ ہونے اور اس کمال کی مقدار جسے حاصل کرنا چاہتاہے اور سب سے بہتر خواہش کی تشخیص میں اس کی معرفت کے اسباب کی نارسائی کی بناپرمذکورہ مشکلات جنم لیتے ہیں اور یہ تمام چیزیں اس (وحی کے ) دائرہ میں حل ہوسکتی ہیں ۔

اخروی لذتوں کی خصوصیات

جیسا کہ اشارہ ہوچکا ہے کہ قرآن کی روشنی میں دنیاوی لذتوں کے علاوہ اخروی لذتوں کے موارد ذکرہیں۔ اور انسان کو لذتوں کے انتخاب میں انھیں بھی مورد توجہ قرار دینا چاہیئے اور اس سلسلہ میں سب سے زیادہ لذت بخش اور سب سے زیادہ پائدار اورجوایجاد کما ل کا باعث ہو اسے انتخاب کرنا چاہیئے اسی بنا پر قرآن مجید نے آیات ( نشانیاں ) کے بیان کرنے کا ہدف دنیا وآخرت کے بارے میں تفکر اور دونوں کے درمیان موازنہ بتایا ہے :

( کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَکُمُ الآیَاتِ لَعَلَّکُم تَتَفَکَّرُونَ٭فِی الدُّنیَا وَ الآخِرَةِ )

یوں خداوند عالم اپنے احکامات تم سے صاف صاف بیان دیئے ہیں تاکہ تم دنیا و آخرت

کے بارے میں غور و فکر کرو۔(۱)

قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ اخروی کمالات ولذتوں کو بیان کرنے والی آیات کی تحقیق وتحلیل ہمیں یہ نتیجہ عطا کرتی ہیں کہ یہ لذتیں اور کمالات، دنیاوی لذتوں کے مقابلہ میں فزونی،پایداری ، برتری اور

____________________

(۱)سورہ بقرہ ۲۱۹۔