6%

خلاصہ فصل

۱۔افعال اختیاری کو انجام دینے کے لئے ہم تین عناصر (معرفت ،انتخاب اورقدرت) کے محتاج ہیں۔

۲۔ اچھے اور برے کا علم، حقیقی کمال کی شناخت اورمعرفت نیز اس کی راہ حصول کے بارے میں اطلاع اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم مبدا ، معاد اور دنیا وآخرت کے رابطہ کو پہچانیں

۳۔ قرآن مجید اگر چہ آنکھ اورکان (حواس ) اور قلب (عقل ودل ) کومعرفت اور سعادت کی عام راہوں میں معتبر مانتا ہے لیکن یہ اسباب محدودہونے کے ساتھ ساتھ امکان خطاء سے لبریز نیز تربیت وتکامل کے محتاج ہیں اس لئے ایک دوسرے مرکز کی ضرورت ہے تاکہ ضروری مسائل میں صحیح وتفصیلی معرفت کے ذریعے انسان کی مدد کرسکے اور وہ منبع و مرکز، وحی الہٰی ہے جو ہمارے لئے بہت ضروری ہے

۴۔خواہش یا ارادہ، اختیار و قصدکے لئے ایک دوسرا ضروری عنصر ہے البتہ یہ کوئی ایسا ارادے والا فعل نہیں ہے جس میں خواہش اور چاہت کا کردار نہ ہوحالانکہ بعض لوگوں نے ارادہ کو شدید خواہش یا مزید شوق کہا ہے۔

۵۔ بہت سی جگہوں میں جہاںچند ناہماہنگ خواہشیں باہم ہوتی ہیں اور انسان مجبور ہوتاہے کہ کسی ایک کو ترجیح دے تواس سلسلہ میں قرآن مجید کی شفارش یہ ہے کہ انسان اپنے کمال کو مد نظر قرار دے اور اس کو معیارانتخاب سمجھے ۔

۶۔ قرآن مجید ایسے بلند و بالا خواہشات کی طرف رہنمائی کرتا ہے جس میں شخصیت و منزلت کی خواہش اور ایک معبود کی عبادت فقط خداوند عالم کی عبادت کے سایہ میں پوری ہوسکتی ہے ۔

۷۔ قرآن مجید اعلی خواہشوں کو ایجاد کمال ،پائدار اور زیادہ لذت بخش ہونے کے معیار پر ترجیح دیتا ہے اور اس بات کی طرف نشاندہی کرتا ہے کہ یہ مذکورہ امور فقط آخرت میں حاصل ہونگے جس کی نعمتیں پائدار ،حقیقی ، رنج وغم سے عاری اور باکمال ہیں۔

۸۔ قدرت ،مقدمات اختیار کے ایک مقدمہ کے عنوان سے کسی بھی عمل کے لئے درکار ہے مثلا شناخت اور معرفت کے لئے انتخاب اور ارادے کی قدرت۔البتہ قرآن کی نظر میں ان تمام موارد کے لئے انسان ضروری قدرت سے آراستہ ہے ۔