استوار اور محکم
دینی انسان شناسی ،تعلیمات وحی سے مستفادہے ،چونکہ یہ تعلیمات نا قابل خطا اور کاملاً صحیح ہیں لہٰذا اس قسم کی انسان شناسی استواری اور استحکام کا باعث ہو گی جو فلسفی ، عرفانی اور تجربی انسان شناسی میں قابل تصور نہیں ہے ، اگر دینی انسان شناسی میں دینی نظریات کا استفادہ اور انتساب ضروری ہوجائے تو ان نظریات کے استحکام اور بے خطا ہونے میں کوئی شک نہیں ہوگا ، لیکن انسان شناسی کے دوسرے اقسام؛ تجربی ، عقلی یا سیر و سلوک میں خطا اور غلطی کے احتمال کی نفی نہیں کی جا سکتی ہے۔
مبدا اور معاد کا تصور
غیر دینی انسان شناسی میں یا تو مبدا اور معاد سے بالکل عاری انسان کی تحقیق ہوتی ہے (جیسا کہ ہم تجربی انسان شناسی اور فلسفی و عرفانی انسان شناسی کے بعض گوشوں میں مشاہدہ کرتے ہیں) یا انسان کے معاد و مبدأ کے بارے میں بہت ہی عام اور کلی گفتگو ہوتی ہے جو زندگی اور راہ کمال کے طے کرنے کی کیفیت کو واضح نہیں کرتی ہے لیکن دینی انسان شناسی میں ، مبدا اور معاد کی بحث انسانی وجود کے دو بنیادی حصوں کے عنوان سے مورد توجہ قرار پائی ہے اوراس میں انسان کی اس دنیاوی زندگی کا مبدا اور معاد سے رابطہ کی تفصیلات و جزئیات کو بیان کیا گیا ہے اسی لئے بعثت انبیاء کی ضرورت پراسلامی مفکرین کی اہم ترین دلیل جن باتوں پر استوار ہے وہ یہ ہیں:دنیا اور آخرت کے رابطہ سے آگاہی حاصل کرنے کی ضرورت اور سعادت انسانی کی راہ میں کون سی چیز موثر ہے اور کون سی چیز موثر نہیں ہے اس سے واقفیت اورعقل انسانی اور تجربہ کا ان کے درک سے قاصر ہوناہے۔(۱)
بنیادی فکر
دینی انسان شناسی کے دوسرے امتیازات یہ ہیں کہ آپس میں تمام افراد انسان کے مختلف سطح کے رابطہ سے غافل نہیں ہے اور تمام انسانوں کو کلی حیثیت سے مختلف سطح کے ہوتے ہوئے، ایک قالب اورایک تناظر میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے ۔ اس تفکر میں انسان کا ماضی ، حال اور آئندہ ، جسم و روح ، مادی و
____________________
(۱)ملاحظہ ہو : محمد تقی مصباح ، راہ و راہنما شناسی ؛ ص ۴۳و ۴۴۔