6%

اس مشکل کے لئے راہ نجات ہے ،لیکن قرآن کی روشنی میں مسئلہ بالکل اس قضیہ کے برخلاف ہے ۔ انسان جب تک خدا کی طرف حرکت نہ کرے اپنے آپ کونہیں پاسکتا ،نیز خود فراموشی میں گرفتار رہے گا۔ آئندہ ہم دوبارہ اس موضوع پرگفتگو کریں گے اور ایک دوسرے زاویہ سے اس مسئلہ پر غور کریں گے ۔

بہر حال قرآن کی روشنی میں خود فراموشی ایک روحی ، فکری ،اسباب و علل اور آثار و حوادث کا حامل ہے ۔بے توجہ انسان جو دوسروں کو اپنی ذات سمجھتا ہے وہ فطری طور پر دوسرے کے وجود کو اپنا وجود سمجھتا ہے اور یہ وجود جیسا بھی ہو ''خود فراموش'' انسان خود ہی اس کے لئے مناسب مفہوم مرتب کرلیتا ہے، اکثر جگہوں پر یہ دوسرا مفہوم ایک ایسا مفہوم ہے جو خود فراموش انسان کی فکر کے اعتبارسے مرتب ہے ۔(۱)

اس حصہ میں ہم خود فراموشی کے بعض نتائج پر گفتگو کریں گے :

خود فراموشی کے نتائج

غیرکو اصل قرار دینا

خود فراموش ، اپنے تمام یا بعض افعال میں دوسرے کو اصل قرار دیتا ہے۔(۲) اور آزمائشوں ، احساس درد ، مرض کی تشخیص ، مشکلات و راہ حل ، ضرورتوں اور کمالات میں دوسروں کو اپنی جگہ قرار دیتا ہے ۔ اور اپنے امور کو اسی کے اعتبار سے قیاس کرتا ہے اور اس کے لئے قضاوت و انتخاب کرتا ہے اور اس کے مطابق عمل کرتا ہے ، قرآن مجید سود خور انسانوں کے سلسلہ میں کہتا ہے کہ :

____________________

(۱)قرآن مجیداور روایات میں جیسا کہ اشارہ ہوچکا ہے کہ انسان کے خود اپنے نفس سے رابطہ کے سلسلہ میں متعدد و مختلف مفاہیم بیان ہوئے ہیں مثال کے طور پر خود فراموشی ، خود سے غافل ہونا ، اپنے بارے میں کم علمی و جہالت ، خود فروشی اور خود کو نقصان پہونچانا وغیرہ ان میں سے ہر ایک کی تحقیق و تحلیل اور ایک دوسرے سے ان کا فرق اور خود فراموشی سے ان کے روابط کو بیان کرنے کے لئے مزید وقت و تحقیقات کی ضرورت ہے ۔

(۲)کبھی انسان بالکل خود سے غافل ہوجاتا ہے اور کبھی اپنے بعض پہلوؤں اور افعال کے سلسلہ میں خود فراموش کا شکار ہوجاتا ہے اسی بنا پر کبھی مکمل اور کبھی اپنے بعض پہلوئوںمیں حقیقت کوغیروں کے حوالہ کردیتا ہے ۔