16%

شیعہ تاریخ کے اوراق میں:

انسان اس دنیا میں جسم وروح ،ظاہر و باطن اور ملک و ملکوت سے مرکب ہے۔ ظاہراً انسان کی زندگی کاآغاز پیدائش کے دن سے ہوجاتا ہے اور مرنے کے دن ختم ہوجاتی ہے۔

لیکن یہ انسان کی حقیقت نہیں ہے حقیقت یہ ہے کہ انسان کی زندگی کا آغاز نہ دنیا کی پیدائش ہے اور نہ ہی مرنے کے بعد ختم ہوجاتی ہے چونکہ دنیا کی حیات و زندگی کی حیثیت تو ایک مسافر کی سی ہے کہ جو اس دنیا کے مسافر خانہ میں مہمان ہے۔ اس دنیا میں آنے سے پہلے انسان کا وجود تھا اور اس دنیا کی حیات کے بعد بھی انسان کا وجود باقی رہے گا لیکن انسان کوکامیابی اور ناکامی اسی حیات دنیوی سے ہی حاصل کرناہے اور انسان کا وجود معنوی عالم ذر سے ہے جس کا وہاں وعدہ لیا گیا ہے۔

( اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوْا بَلٰی ) (۱)

شیخ الرئیس ابو علی سینا قصیدہ ہائےة میں کہتے ہیں:

(هَبَطْتُ اِلَيْکَ مِنَ الْمَحَلِّ الْاَرْفَعِ وَرُقَائُ ذَاتِ تُعَزِّزْ وَتَمْنَعْ )(۲)

مرغ باغ ملکوتم نہ یم از عالم خاک

چند روزی قفسی ساختہ اند از بدنم (مولانا )

روح جب جسم انسان سے خارج ہو کرآزاد ہوجاتی ہے تو بدن انسان کو خاک میں دفن کردیا جاتا ہے جسم انسان خاک میں مل جاتا ہے لیکن روح با قی رہتی ہے موت تو روح کو ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچنے کا ذریعہ بنتی ہیں گویا جسم انسان و حیاتِ جسم انسان ختم ہوجاتی ہے لیکن روح انسان کو زندگی اور بقاء حاصل ہے۔

____________________

۱:سورہ مبارکہ الاعراف ۱۷۲ ۲: شرح نہج البلاغہ ج۷ ص ۳۹۹