16%

حرفے چند:

کسی زمانے میں جب مسودے ہاتھ سے لکھے جاتے تھے اور کتابیں ہاتھ سے نقل ہوتی تھیں ، اس وقت قلم ، قلم کار اور کتاب ایک مثلث کے تین اضلاع کہلاتے تھے۔ لیکن ! چھاپ خانے کی ایجاد کے بعد اس مثلث میں ایک ضلع کا اضافہ مطبع یا ناشر کی شکل میں ہوا ۔ اس طرح سے یہ مثلث نکل کر مربّع بن گیا۔ آج کے زمانے میں اب قلم کی جگہ کمپیوٹر اور ناشر وکتاب کی جگہ انٹر نٹ اور سی ڈیز وغیرہ نے لے لی ہے۔ یعنی پھر سے وہی مثلث قائم ہوگیا ۔ لیکن تخلیق کا ر اب بھی وہی انسان ہے قلم کارکی جگہ کوئی نہیں لے سکا ہے ۔ یہ بات بھی اپنی جگہ مسلمہ حقیقت ہے کہ کتاب کا متبادل نہ پہلے تھا اور نہ آئندہ ہوگا۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسان کیوں لکھتا ہے ؟ عالمی دانشوروں اور ماہرین نفسیات کے مطابق اس کے کئی اسباب ہوتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ انسان اپنی نظریات ، اعتقادات ، معلومات ، تجربات اور مشاہدات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانا چاہتا ہے اور یہ سب کچھ آنے والی نسلوں کو ورثے میں دینا چاہتا ہے ۔ اور یہی لکھنے کا سب سے بڑا محرّک بتا یا جاتا ہے۔ لکھنے کا ایک بڑا سبب یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ انسان لا فانیت کی تلاش میں سر گرداں رہتا ہے ہر انسان چاہتا ہے کہ موت کے بعد وہ ایک ایسا خلا اپنے پیچھے چھوڑ جائے جس کو بڑی کوششوں کے بعد بھی پُر کرنا ممکن نہ ہو اور موت کے بعد بھی جاودانی زندگی گزارنے کا خواب دیکھتا ہے پس ادب اور فنون لطیفہ کی تخلیق اور ترقی کے پس پشت انسان کا یہی فطری رجحان کا ر فرما رہا ہے۔ اس طرح سے دنیا میں لاکھوں ، کروڑوں کتابیں وجود میں آئیں اور انہی کتابوں کے ذریعے علم کا نور چار دانگ عالم میں پھیل گیا۔ یوں انسانی تہذیب میں قلم ، قلم کار اور کتاب کے مثلث کا انتہائی اہم کردار رہا ہے۔ اسی مثلث نے انسانی زندگی کی تاریک راہوں کو روشن کیا ہے زخمی دلوں پر پھاہا رکھا ہے ۔ لیکن گاہے بگاہے کچھ دل آزار اور اشتعال انگیز کتابوں اور تحریروں نے ہنگامہ بھی کھڑا کیا ہے۔خون خرابہ بھی ہوا ہے اور انسانی جانیں ضائع ہوئی ہیں۔