قرآن مجید ہدایت فطری،فہم کی قدرت اور انسانی زندگی اور اس کے کام کرنے کی طاقت کو تجارت کا سرمایہ شمار کرتا ہے اگر یہ سرمایا صحیح عقائد اور معارف الہی کے حصول اور عمل صالح کی راہ میں استعمال ہو تو یہ نفع بخش تجارت ہے جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے۔
( إِنَّ اللَّـهَ اشْتَرَىٰ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ ۚ )
بے شک اللہ نے صاحبان ایمان سے ان کے جان و مال کو جنت کے عوض خرید لیا ہے۔(۲)
لیکن اگر یہ سرمایہ ضلالت اور گمراہی کی راہ میں خرچ کیا ہو تو یہ نقصان دہ تجارت ہے جیسا کہ اسی آیت میں اللہ تعالی منافقوں سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے کہ انہوں نے فطرت،عقل اور ہدایت کو فروخت کر کے ضلالت و گمراہی کو خرید کر لیا ہے یہ نادان تاجر ہیں تاریک بیابان میں ہدایت کے چراغ کے بغیر حیران و سرگردان ہیں۔
انہیں دنیا نے فائدہ نہیں پہنچایا ہے کیونکہ ہمیشہ فائدہ سرمایا سے زیادہ ہو اکرتا ہے اور ہدایت الہی کی بدولت انہیں جو اجتماعی اور انفرادی مفادات حاصل ہو سکتے تھے وہ بھی انہیں میسر نہ آسکے اور ان مفادات کے مساوی بھی انہیں کچھ نہ مل سکا اور اس ہدایت سے بھی محروم رہے جو آخروی نجات کی ذمہ دار تھی لہذا ان کی یہ تجارت انہیں فائدہ نہ دے سکی بلکہ یہ ان کی نقصان دہ تجارت ہے لہذا انہیں قیامت والے دن دردناک عذاب دیا جائے گا۔
( مَثَلُهُمْ کَمَثَلِ الَّذِی اسْتَوْقَدَ نَارًا فَلَمَّا أَضَائَتْ مَا حَوْلَهُ ذَهَبَ اللهُ بِنُورِهِمْ وَتَرَکَهُمْ فِی ظُلُمَاتٍ لاَیُبْصِرُونَ )
ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ سلگائی مگر جب اس آگ سے ہر طرف ورشنی پھیل گئی تو خدا نے ان کی روشنی لے لی اور ان کو انھیروں میں چھوڑ دیا کہ اب انہیں کچھ سجھائی نہیں دیتا۔
__________________
(۲) سورہ توبہ آیت ۱۱۱