9%

خوف و ہراس پر مشتمل زندگی

خداوندعالم اس آیة مجیدہ میں منافقین کی زندگی کی اس طرح تصویر کشی کر رہا ہے کہ ان کی پوری زندگی خوف و ہراس پر مشتمل ہے یہ لوگ انتہائی وحشت اور سرگردانی میں مبتلا ہیں۔

ان کی مثال ایسے مسافر کی مانند ہے جس پر گرج چمک اور بجلیوں کی کڑک کے ساتھ سخت بارش برس رہی ہے بادلوں کی گرج اور بجلی کی کڑک اتنی وحشت ناک اور مہیب ہے کانوں کے پردے چاک کیے دیتی ہے وہ اپنی انگلیاں کانوں میں ٹھونسے ہوئے ہیں کہیں اس خطرناک آواز سے ان کی موت واقع نہ ہو جائے۔

اس وقت ان کی کوئی پناہ گاہ نہیں ہے وسیع اور تاریک بیابان میں حیران و سرگردان ہیں تاریکی ختم ہونے کا نام نہیں لیتی ان پر عجیب قسم کا خوف و ہراس حاوی ہے اسلام کے غلبہ سے ان کی دنیا سیاہ ہو گئی ہے اس خطرناک زندگی میں ان کا دل دھلا جا رہا ہے۔اسلامی فتوحات کی وجہ سے ہلاکت سامنے نظر آرہی ہے دل لرز رہے ہیں اس کے متعلق کچھ نہیں سننا چا ہتے اس لیئے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے ہیں تا کہ حق کو نہ سن سکیں اور ہلاکت سے بچ جائیں لیکن اللہ ہر طرف سے انہیں گھیرے ہوئے ہے اور ان کے بچ نکلنے کی کوئی راہ نہیں ہے۔

عذاب خدا کا احاطہ

خداوندمتعال اس آیة مجیدہ میں ارشاد فرما رہا ہے کہ میرا ان پر مکمل احاطہ ہے یہ لوگ کسی صورت مین بھی میرے عذاب سے نہ بچ سکیں گے۔اس مقام پر ان الفاظ میں ارشاد فرمارہا ہے کہ میرا کافروں پر مکمل احاطہ ہے یعنی ہر وہ شخص جو قلبا اسلامی اصولوں کو نہیں مانتا وہ حقیقت میں کافر ہے اب ایک شخص زبانی کلامی تو اسلامی عقائد کا اظہار کرتا ہے اور باطن میں اس کا نکار کرتا ہے تو یہ باطنی کفر ہے۔