9%

خداوندعالم اس آیت میں ارشاد فرما رہا ہے کہ کافر خواہ اپنے کفر کو ظاہر کرتا ہو یا کفر اس کے دل میں ہو اور زبان سے اسلام کا اظہار کرتا ہو وہ عذاب الہی سے ہرگز نہیں بچ سکتا میرا عذاب اس پر محیط ہے اور وہ اس سے نہیں بچ سکتے۔

( یَکَادُ الْبَرْقُ یَخْطَفُ أَبْصَارَهُمْ کُلَّمَا أَضَاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِیهِ وَإِذَا أَظْلَمَ عَلَیْهِمْ قَامُوا وَلَوْ شَاءَ اللهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَأَبْصَارِهِمْ إِنَّ اللهَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ ) ( ۲۰)

قریب ہے کہ بجلی ان کی آنکھوں کو خیرہ کردے جب بھی بجلی چمکتی ہے تو وہ چلنے لگتے ہیں اور جب اندھیر ا ہو جاتا ہے تو کھڑے ہو جاتے ہیں اگر خدا چاہتا تو ان کی سماعت وبصارت کو ختم کردیتا بلا شبہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

مضطرب زندگی

خداوندعالم منافقین کی مضطرب اور مردد زندگی کو بیان کر رہا ہے جب بجلی چمکتی ہے تو یہ چند قدم چل لیتے ہیں لیکن جونہی اندھیرا چھا جاتا ہے اور تا ریکی مسلط ہو جاتی ہے تو یہ اپنی جگہ پر رک جاتے ہیں۔

یعنی جب یہ لوگ دیکھتے ہیں کہ اسلام کو فتح نصیب ہو رہی ہے تو کچھ دیر کے لئے انہیں اسلام بھلا معلوم ہو تا ہے اس وقت انہیں یہ خیال آتا ہے کہ ہمیں اسلام کے نور کی روشنی میں چلنا چاہیے اور مسلمانوں سے تعلقات استوار رکھنے چاہیے لیکن اگر اتفاق سے فتح کامرانی کا سلسلہ رک جائے اور مسلمانوں کو وقتی شکست اور زحمت کا سامنا کرنا پڑے تو فورا ان کے بڑھتے ہوئے قدم رک جاتے ہیں۔ یہ متحیر ومضطرب و مردد، ہو کر کھڑے ہو جاتے ہیں یہ صرف دنیاوی مفاد کے تحفظ میں ہیں یہ لوگ دل سے اسلام کی حقانیت پر غور نہیں کرتے اسی وجہ سے مضطرب ہیں۔

قرآن مجید ان کی کیفیت و حالت کو ان الفاظ میں بیان کرتا ہے کہ جب روشنی دیکھتے ہیں تو چل پڑتے ہیں اور جب تاریکی ہو جاتی ہے یعنی عارضی طور پر فتح کا سلسلہ رک جاتا ہے تو بد گمان ہو جاتا ہے منافقین میں حق طلبی کا جذبہ نہیں ہے دین اسلام کی کامیابیوں سے انہیں تکلیف ہوتی ہے،جس کے نتیجے میں ان فتوحات کو نظر بھر دیکھنے کی تاب نہیں رکھتے لہذا قریب ہے کہ یہ چمک ان کی نگاہوں کو خیرہ کردے۔