ہمیں اس پروردگار عالم کی عبادت کرنا چاہیے جو ہمیں اپنی کامل قدرت اور حکمت کے ساتھ عدم سے وجود میں لایا ہے یہ خدا کی قدرت،حکمت اور رحمت کی نشانی ہے۔ قرآن مجید تمام انسانوں کو توحید کی طرف دعوت دے رہا ہے کہ تم ذرا غور کرو تو یہی تمہارا حقیقی رب ہے اس نے تمہیں بھی خلق کیا ہے اور تم سے پہلے تمہارے آباؤ اجداد کا بھی وہی خالق ہے بلکہ پوری کائنات خالق وہی ہے اس ذات کے علاوہ کوئی خالق نہیں ہے لہذاعبادت بھی صرف اسی کیساتھ مختص ہے، تم اپنے خود ساختہ خداؤں کو پوجنا چھوڑ دو کسی چیز ہر بھی قادر نہیں ہیں۔اگر تم اپنے اور اباؤ اجداد کی خلقت پر غور کرو اور لا تعداد نعمتوں کے متعلق فکر کرو تو معلوم ہوگا کہ یہ سب اس ذات کی رحمت ہے جسکا ولم و قدرت لامتناہی ہے اس وقت یقینا تم اسے ہر لحاظ سے یکتا مانو گئے اور اس کے علاوہ کسی کی عبادت کا نہیں سوچو گئے۔
تقویٰ ایک نفسانی ملکہ، یہ اعمال صالحہ کی مکمل ادائیگی سے حاصل ہوتا ہے اسی وجہ سے تقویٰ کو عبادت کا فلسفہ کر دیا ہے انسان عبادت کے ذریعے تقویٰ کی منزل تک پہنچ سکتا ہے اور تقویٰ چاہیے والی کی صف میں اپنا ستمار کروا سکتا ہے،عبادت ہی موجد تقویٰ ہے۔ اگر عبادت کرنے کے باوجود بھی انسان میں تقویٰ پیدا نہ ہوسکے تو وہ عبادت نہیں ہے کیونکہ اس کائنات کی خلقت و افرنیش کا مقصد انسانیت کی تکمیل ہے جبکہ انسان کی خلقت عبادت کیلئے ہے اور عبادت کا اصلی ہدف تقویٰ ہے لہذا ہم خدائی دستورات اور فرامین کے مطابق زندگی بسر کریں تو ہم پرہیز گار کہلواسکتے البتہ ہمیں اپنی عبادت میں مفرور بھی نہیں ہونا چاہیے کیونکہ غرور اور ریا ہمیں تقویٰ سے بہت دور لیجاتی ہے۔
( الَّذِی جَعَلَ لَکُمْ الْأَرْضَ فِرَاشًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَأَنْزَلَ مِنْ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنْ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَکُمْ فَلاَتَجْعَلُوا لِلَّهِ أَندَادًا وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ ) ( ۲۲)
جس نے تمہارے لئے زمین کو بچھونا اور آسمان کو چھت بنایا اور پھر آسمان سے پانی برسا کر تمہاری روزی کے لئے زمین سے پھل نکالے پس تم کسی کو اس کا ہمسر نہ بناؤ حالانکہ تم خوب جانتے ہو۔