قرآن مجید نے نفسیاتی طریقہ اختیار کیا ہے اس نے تیز سے تیز اور سخت سے سخت الفاظ میں چیلنج کیا ہے اور انہیں بتایا ہے کہ اگر تمہیں اس میں شک ہے تو اس جیسی کوئی اور کتاب بنالاؤ یعنی انہیں غیرت اور حمیت دلاتی ہے تاکہ وہ اپنی پوری طاقت اور قوت کو استعمال کرتے ہوئے مقابلہ کی کوشش کریں۔
وہ غیور اور باحمیت اور پر جوش عرب جو چھوٹی چھوٹی بات پر جان دینے کے لئے آمادہ ہو جا تے تھے اگر ان میں دم وخم ہوتا اور وہ قرآن کے چیلنج کا جواب دے سکتے ہوتے تو وہ ان طعنوں،سرزنشوں،اور مبارزہ طلیبوں کو سن کر ضرور اپنی فکر کی طاقتوں سے جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتے۔
لیکن وہ ناکام اور عاجز رہے انہوں نے واضح طور پر جان لیا کہ یہ انسانی طقت سے باہر ہے اور یہ خدائی کام ہے حضرت محمد (ص) نے تو اسے اپنی حقانیت کی دلیل بنا کر پیش کیا ہے مضحائے عرب کو مقابلہ کی دعوت دی وہ قرآن مجید کے چیلنج کا جواب لانے سے عاجز آگئے۔ قرآن کاچیلنج لا جواب رہا اور قیام قیامت لا جواب رہے گا کیونکہ اس کی حقانیت کا ثبوت ہمہ گیر حیثیت رکھتا ہے اسی وجہ سے یہ صرف عربوں کے لئے معجزہ نہ تھا۔
بلکہ پوری خلق کے لئے عربی ادیب عمر بن بحر حافظ کہتے ہیں۔عرب قوم کا قرآن جیسا کلام پیش نہ کر سکنا اور اس کے مقا بلے میں عاجز آجانا دنیا کے تمام غیر عرب لوگوں کے لیئے قرآن کی حقانیت کا ثبوت ہے۔
جہاں تک عرب قوم کا تعلق ہے اس نے اس قرآن کے مقابلہ میں اپنی عاجزی کا اظہار کردیا تھا ۱۴۰۰ سال بعد بھی قرآن مجید اسی انداز میں اپنی مقابل دنیا کے ہر طبقہ کو پکار پکار کر مقابلہ کی دعوت دے رہا ہے اور مخالفین کو سرتوڑ کوشش کے بعد ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
یہ ماننا پڑا کہ قرآن مجید کا یہ دعوی لا یا تون بمثلہ۔تا قیام قیامت سچا رہے گا یہ سچائی پر اعتماد کی انتہا ء ہے دشمنوں کے ماحول میں داعی حق انتہائی اطمنان و سکون بلکہ یقین کے ساتھ کہ رہا ہے تم ہرگز ہرگز اس کا مثل نہ لا سکو گے اور قرآن کا مثل لانا اس کائنات کی طاقت سے باہر ہے۔