9%

( إِنَّ اللهَ لاَیَسْتَحْیِی أَنْ یَضْرِبَ مَثَلًا مَا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا فَأَمَّا الَّذِینَ آمَنُوا فَیَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّهِمْ وَأَمَّا الَّذِینَ کَفَرُوا فَیَقُولُونَ مَاذَا أَرَادَ اللهُ بِهَذَا مَثَلًا یُضِلُّ بِهِ کَثِیرًا وَیَهْدِی بِهِ کَثِیرًا وَمَا یُضِلُّ بِهِ إِلاَّ الْفَاسِقِینَ )

بے شک اللہ اس سے نہیں شرماتا کہ وہ مچھر یا اس سے کم تر کسی چیز کی مثل بیان کرے اب جو لوگ ایمان لا چکے ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ ان کے پروردگار کی طرف سے برحق ہے اور جنہوں نے کفر اختیار کیا وہ یہی کہتے ہیں کہ آخر ان مثالوں سے خدا کا مقصد کیا ہے خدا اس سے بہت سے لوگوں کو گمراہ کرتا ہے اور بہت سوں کو ہدایت دیتا ہے اور گمراہی میں صرف فاسقوں کو ڈالتا ہے۔

شان نزول

اس آیت مبارکہ کے شان نزول کے حوالے سے ابن مسعود روایت بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالی نے منافقین کی پہچان کے لیئے اسی سورہ کی ۱۷ ویں اور ۱۹ ویں آیات میں مثال کے ذریعے ان کے حقائق سے پردہ اٹھایا تو وہ کہنے لگے خدا سے بعید ہے کہ وہ ایسی مثالیں بیان کرے۔

ان کے جواب میں خداوندعالم نے اس آیة مبارکہ کو نازل کیا کہ اللہ تعالی کو مچھر اور اس سے کمترکسی چیز کی مثال بیان کرنے میں کوئی جھجک نہیں ہے۔اسی طرح اس آیت کے شان نزول کے حوالہ سے قتادہ کی یہ روایت بھی کتب تفسیر میں موجود ہے کہ خداوندعالم نے سورہ عنکبوت کو نازل کیا تو یہودی اعتراض کرنے لگے اور کہنے لگے یہ خدا کی نازل کردہ سورہ نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالی سے بعید ہے کہ وہ ایسی چیزیں بیان کریں۔

اس وقت یہ اایت نازل ہوئی اور خداوندعالم منافقین اور کافرین کے حقائق کو ایسی مثالوں سے بیان کرسکتا ہے۔مچھر ہو یا عنکبوت کی مثال سب اللہ کی طرف سے ہیں اسی کمتر مخلوق مچھر ہی نے تو نمرود جیسے مغرور شخص کو ہلاک کر دیا تھا اور عنکبوت (مکڑی) نے غار ثور کے دھانے جالہ بن کر پیغمبر اسلام کی حفاظت کی تھی،یہ حقیر چیزیں نہیں ہیں بلکہ انہوں نے تو تاریخ کا رخ ہی موڑ دیا تھا نمرود ظالم تھا اسے مچھر نے ہلاک کر کے نئی تاریخ لکھی ادھر مکڑی نے ظالموں سے حضرت کی حفاظت کر کے تا ریخ رقم کی۔