خداوندعالم نے اس آیت میں ہدایت و گمراہی کو اپنی طرف نسبت دی ہے اس مراد یہ ہے کہ یہ گمراہی انسان کے برے عمل کی وجہ سے ہے کیونکہ انسان حجت عقل نقل کتاب سنت کے ہوتے ہوئے بھی صراط مستقیم پر نہ چل سکے تو بہ کا دروازہ کھلا ہونے کے باوجود گناہ طغیانی اور سرکشی پر مصر رہے تو ایسا شخص اپنے سو اختیار کی وجہ سے صراط مستقیم سے منحرف ہو جائے گا اس وقت اللہ بھی اسے اپنے حال پر چھوڑ دیتا ہے اور مزید لطف توفیق کا راستہ اس پر بند کر دیتا ہے جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے۔
( فَلَمَّا زَاغُوا أَزَاغَ اللَّـهُ قُلُوبَهُمْ ) ۔(۱)
جب وہ اپنے حق سے منحرف ہوئے تو خدا نے بھی ان کے دلوں کو منحرف کردیا۔
اس آیت کے آکر مین خداوندعالم نے ارشاد فرمایا ہے کہ یہ گمراہی صرف ان فاسقوں کا مقدر ہے یعنی جو لوگ اپنے ارادے اور سو اختیار کی وجہ سے د ین سے خارج ہو گئے ہیں یہ فاسق کہلاتے ہیں۔(۲)
اللہ کا مقصد انہین گمراہ کرنا نہیں ہے لیکن ان مثالوں سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ بعض تو ہدایت یافتہ ہو جاتے ہیں اور بعض تعصب اور عناد کی وجہ سے مزید گمراہی میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور گمراہی ان کے لیئے ہے جو ابتداء ہی سے راہ حق سے ہتے ہوئے ہیں یعنی یہ گمراہی ہمارے اپنے سو اختیار اور بد اعمالی کی وجہ سے ہے اللہ نے ان پر کوئی جبر نہیں کیا بلکہ انہیں تو اختیار تھا انہوں نے گمراہی کو اختیار کر لیا اور ہدایت کو چھوڑ بیٹھے۔
____________________
۰۰۰ صف آیت ۵۔۰۰۰
(۲)المراد بافاسقین ھنا الخارجون عن حدودالایمان،روح المعانی ج ۱ ص ۲۱۰،