فاسقون کی تیسری صفت یہ ہے کہ یہ لوگ زمین مین فساد برپا کرتے ہین یعنی خداوندعالم نے انہیں اس دنیا کو قبول کرنے ضروریات پر عمل پیرا ہونے اور توحید انبیاء اور قیامت پر صحیح عقیدہ رکھنے کا حکم دیا ہے یہ اس دین کے مقابلہ میں اپنا غلط عقیدہ رکھتے ہیں لوگوں کو اسلام کے سامنے سرتسلیم خم کرنے سے روکتے ہیں حق و حقیقت کا استہزاء کرتے ہیں مومنین کو اذیتیں دیتے ہیں اس نظام ہستی میں موجود اصلاح سے سبق حاصل نہیں کرتے بلکہ خلق خدا کی گمراہی کا سامان پیدا کرتے ہیں یعنی یہ لوگ اپنے طرز عمل سے زمین خدا پر فساد برپا کرتے ہیں تا کہ لوگوں کے عقائد حقہ میں تزلزل پیدا ہو جائے۔
اس آیت کے آخر میں خداوندعالم ارشاد فرماتا ہے کہ جو لوگ مندرجہ بالا صفات کے مالک ہیں وہ خسارے اور نقصان میں ہیں یعنی جو لوگ ہدایت فطری کا سرمایا اپنے ہاتھوں سے دے دیتے ہیں،حقوق اللہ اور حقوق الناس کا خیال نہیں رکھتے بانی شریعت کو تکلیف میں مبتلا کرنے میں کوشاں رہتے ہیں اسلامی احکام پر عمل پیرا نہیں ہوتے فساد کا موجب بنتے ہیں۔
یہ اس دنیا میں بھی خسارے میں ہیں کیونکہ ان پر کوئی اعتماد نہیں کرتا انہیں قلبی سکون میسر نہیں ہوتا،ہر وقت پریشانی انہیں دامن گیر رہتی ہے،ساری زندگی منافقت اور غلط کاری میں گزار دیتے ہیں اپنی تمام سعادتیں بدبختی اور سیاہ کاری میں خرچ کرتے ہیں اور دین الہی سے کارج ہو جاتے ہیں اور آخرت میں بھی یہ لوگ خسارے میں ہوں گے اور جہنم کا ابدی عذاب نہ صرف ان کا بلکہ ان کے خاندان کا بھی مقدر ہو گا،جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے۔
( خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ ) (۱)
فسق کی راہ اختیار کرنے والے خود بھی خسارے اور گھاٹے میں ہیں اور اپنے خاندان کو بھی قیامت تک اس خسارے اور نقصان میں مبتلا کر دیں گے۔
___________________
۰۰۰ زمر آیت ۱۵ ۰۰۰