( کَیْفَ تَکْفُرُونَ بِاللهِ وَکُنتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْیَاکُمْ ثُمَّ یُمِیتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیکُمْ ثُمَّ إِلَیْهِ تُرْجَعُونَ ) ( ۲۸)
تم کس طرح اللہ کا انکار کر سکتے ہو حالانکہ تم بے جان تھے اس نے تمہیں زندگی دی پھر وہی تمہیں موت دے گا اور وہی تمہیں زندگی دے گا اور پھر اس کی طرف لٹا ئے جاؤ گے۔
توحید شناسی۔
یہ اور اس کے بعد آنے والی آیت انسان کو خدا کی عظمت اور توحید شناسی کی طرف متوجہ کر رہی ہے گویا خدا وند عالم نے۔ ۱۲،۲۲ آیت میں تو حید شناسی کے حوالہ سے جو دلائل بیان کیے تھے ان کی تکمیل کرتے ہوئے انسانوں کو سر زنش کر رہا ہے کہ میں نے تمہیں اس قدر نعمتیں عطا کیں ہیں اس کے باوجود تم کیونکر انکار کرتے ہو۔اس آیت میں خدا بیک وقت کافر،منکر اور مسلمان سب کو مخاطب ہے کافروں کے لئے یہ برھان اور حکمت کے عنوان سے ہے۔
جبکہ تمہارا اور اس پوری کائنات کا خالق میں ہوں تو پھر انکار کیسا؟ لیکن جو لوگ اللہ کو خالق مانتے ہیں لیکن شرک کرتے ہیں ان کے لئے یہ آیت جدال ہے کہ جو حقیقی خالق ہے موت وحیات بھی اس کے قبضہ قدرت میں ہے وہی پوری کائنات کو مدبر ہے۔
اس کے علاوہ کوئی رب نہیں ہوسکتا تم صرف اسی کے سامنے سر تسلیم خم کرسکتے ہو،جب وہی سب کچھ ہے تو پھر انکار کیسا؟اور جو لوگ خدا کی خالقیت اور ربوبیت کے قائل ہیں لیکن معصیت اور سرکشی کر بیٹھے ہیں اور خود کو مسلمان کہلوانے کے باوجود بد عملی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔