9%

علم مطلق خداوند

اس سورہ کی بیسویں آیت خداوند متعال کی قدرت مطلقہ پر دلالت کرتی ہے قدرت خدا کا تزکرہ اس کے ضمن میں ہو چکا ہے لیکن ابھی تک اس سورہ میں خداوند متعال کے علم مطلق کے متعلق تذکرہ نہیں ہوا۔

یہ پہلا مقام ہے جہاں اس صفت کو بیان کیا جا رہا ہے۔قرٓن مجید نے خداوندعالم کو ”عالم“ ”علیم“ اور علام سے یاد کیا ہے اگر یہ تینوں کلمے اللہ تعالی کے وصف علم کو بیان کر رہے ہیں لیکن علیم اور علام کسی اور خصوصیت کو بھی بیان کر رہے ہیں جو کلمہ عالم میں نہیں ہے۔کلمہ علیم علام کی طرح مبالغہ کا صیغہ ہے اور یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ خدا کا علم تمام جوانب،اشیاء،اشخاص اور مخلوقات پر محیط ہے۔کسی چیز کا خالق اس کے متعلق مکمل علم رکھتا ہے اور اللہ اس پوری کائنات کی ہر ہر چیز کا خالق ہے لہذا معلوم ہو گا کہ اللہ تعالی کا ئنات کے ذرے ذرے کا علیم اور جاننے والا ہے۔

( وَإِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلاَئِکَةِ إِنِّی جَاعِلٌ فِی الْأَرْضِ خَلِیفَةً قَالُوا أَتَجْعَلُ فِیهَا مَنْ یُفْسِدُ فِیهَا وَیَسْفِکُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ قَالَ إِنِّی أَعْلَمُ مَا لاَتَعْلَمُونَ )

اوراے رسول !(اسوقت کو یاد کرو) جب تمھارے پرور دگار نے ملائکہ سے کہا کہ میں زمین میں اپنا خلیفہ بنا نے والا ہوں تو انہوں نے کہا۔کیا اسے بنا ئے گا جو زمیں میں فساد اورخونریزی کرے جبکہ ہم تیری تسبیح اورتقدیس کرتے ہیں۔تو ارشاد ہوا میں وہ جانتاہوں جو تم نہیں جانتے۔

نعمت خلافت۔

گزشتہ آیات میں خدا وندعالم سے خلقت انسان کے مقصد اورھدف کو بیان کیاتھااب اس آیت میں اس ھدف اور مقصد تک پہنچنے کیلئے راہ اور راہنماکو بیان کررہاہے کیونکہ جس چیز کا آغاز اور انجام ہوتاہے اس کیلئے راہ اور راہنما کا ہونا ضروری ہے۔اسی لئے اللہ تبارک وتعالیٰ ایک آیت میں اپنی بہترین نعمت ” خلافت “ کا تذکرہ فرمارہے۔