قرآن مجید کی اس آیت سے واضح طور پر معلوم ہورہاہے کہ خداوند عالم نے قرمایا‘ میں زمین میں اپنا خلیفہ بنانے والاہوں‘کہ حقیقی خلیفہ وہی ہے جیسے خود خدابنائے اس کا معیارتقوی اور تقدس کیساتھ علم اسماء کو قرار دیاہے۔
خد انے ملائکہ کو بھی تعلیم دی تھی جسکا انہوں نے اقرار بھی کیاتھا لیکن وہ اسے شنوصیات پر منطبق نہ کرسکے بہرحال خلیفہ اللہ صاحب کردار اوراعلم کائنا ت ہوتاہے۔حقیقی خلیفہ کی معرفت کے لئے ہم اس روایت کو بیان کرتے ہیں جس میں حضرت عمر نے مسجد نبوی میں بیٹھے ہوئے جناب سلمان ‘ حباب طلحہ‘ جناب زبیر ‘ اور کعب الاجبار سے سوال کیا کہ کیاتم لوگ جانتے ہو کہ حقیقی خلیفہ اور بادشاہ میں کیا فرق ہے طلحہ اور زبیر نے کہا ہمیں معلوم نہیں ہے لیکن حضرت سلمان نے کہا میں ان کے درمیان فرق کوجانتاہوں۔وہ فرق یہ ہے۔
الخلیفه هوالذی یعدل بالاعیه ‘ ویقسم ‘ باسویه ویشفق علیهم شغقه الرجل علی اهله و یقضی لکتاب الله
یعنی خلیفہ وہ ہوتاہے جو اپنی رعیت کیساتھ عدل وانصاف کرے انہیں برابر برابر حقوق اوراپنی رعیت پر اسقدا مہربان ہو جتنا اپنے اہل خانہ پر مہربان ہے اسکا ہر قیصلہ قرآن کے مطابق ہوتاہے۔
اور وہ اللہ کے اور اولاامر نواہی کو کسی کمی اورزیادتی کے بغیر اسی طرح بیان کرتاہے جستطرح وہ نازل ہوئے ہیں۔اور بادشاہ اسکے علاوہ ہے۔
یہ سنتے ہی کعب الاجبار نے کہا سلمان تم نے کتنی اچھی بات کہی ہے ‘ مجھے بھی خلیفہ کے معنیٰ کا علم نہ تھا اور میرے علاوہ یہ بھی اس کے معنیٰ سے آگاہ نہ تھے۔سلمان تم علم وحکمت سے کتنے بسریز ہو۔(۱)
بہر حال اللہ اوراسکے خلیفے کے درمیان قرب معنوی پایاجاتاہے اسی وجہ سے خلیفہ کیلئے ضروری ہے خلیفہ الہی مظہرالعجائب اور مظہر الغرائب ہونا چاہیے۔اسے جسمانی ‘ روحانی اور تمام جامع حقائق صفات میں پوری کائنات سے افضل ہونا چاہیے۔
_____________________
(۱) منھبح الصادقین جلد۔۱۔ص ۲۲۰۔۲۲۱