9%

اس سے مراد خارج میں موجود اشیاء کے نام ہیں یعنی کائنات کی ہر بڑی چھوٹی چیز جودین ودنیا کے ساتھ مربوط ہوسکتی ہے اس کے نام آدم کو تعلیم کئے گئے۔دوسرانظریہ یہ ہے کہ خداوندمتعال نے حضرت آدم کو اشیاء کے خواص ‘ آثار اور معانی سے آگاہ کیاہے مثلاًفرض کریں خدانے کسی جانورکو خلق کیا ہے تواس کی خلقت کے فلسفے کو آدم سے بیان کیاہے اوراس فلسفے کی تعلیم دی ہے۔تیسرا نظریہ یہ ہے کہ ان اسماء سے مراد اسراد آفریتش میں اورخزائن خداہیں۔

جہاں تک پہلے معنی ٰ کا تعلق ہے کہ اس سے مراد ہر جادات ونیابات وغیر ہ کے نام ہیں یعنی یہ فرہنگ لغت ‘ کا علم ہے اوریہ علم کوئی ایسی بلند فضیلت چیز نہیں ہے جیسے ملائکہ کے مقالبے میں شرف وبزرگی کا معیار قرار دیاجاسکے اسی طرح اسکا دوسرا معنیٰ اور نظریہ بھی نامناسب ہے کیونکہ یہ اسماء کے عزمی مفہوم سے خارج ہے کیونکہ الفاظ توان عربی مفاھیم پرآتے ہیں ان معانی پرنہیں آتے جو عقلی تو جیہات کی وجہ سے کھینچ تان کرقراردیئے گئے ہوں۔(۱)

علم آدم اورخزائن غیب:

حضرت آدم کو جن اسماء کی تعلیم دی گئی تھی وہ نہ توالفاظ تھے اور نہ ہی مفاھیم تھے کیونکہ اسماء کیلئے جمع مزکر سالم کی ضمیر لانااس بات کی علامت ہے کہ حقائق خارجیہ تھے‘ مفاھیم زحینہ نہ تھے اللہ کی تمام آیات اورنشانیوں کی تعلیم لازمی ہوتی ہے یعنی متعلم اور معلم کے درمیان کسی قسم کاکوئی واسطہ نہیں ہے۔

بہرحال جن اسماء کی اللہ تعالی ٰ نے حضرت آدم کو تعلیم دی تھی خزائن غیب میں جسکی خدا نے انسان کامل کو تعلیم دی ہے لہذا اس کائنات میں جو کچھ بھی ہے اسکا تعلق اوررشتہ اصلی وہی مخزن ہے اورجو خلیفہ الہی ہے وہ اس رشید سے باخبر ہے۔

____________________

(۱) فصل الخطاب۔جلد۱۔ص۹۸۔المیزان۔جلد۱۔ص۲۳۳