بعض مفسرین کا خیال ہے خدانے اپناارادہ تکوینی فرشتوں کے دل میں ڈالااورانہوں نے خداکے ارادہ تکوینی سے تمام موجودات کامشاہدہ کیایعنی خدانے چاہاکہ فرشتے موجودات کا مشاہدہ کریں فوراًانہوں نے مشاہدہ کیااوراپنے لاعلمی کااعلان کردیا۔
بعض مفسرین کاخیال ہے کہاس سے صرارروح ہے اورفرشتوں کا عالم ارواح جیسے عالم انوار بھی لکھتے ہیں میں امتحان دیا اورانہوں نے انسان کامل کے مقابلے میں لاعلم ہونے کا اعتراف کرلیا اورحضرت آدم کی فضیلت اور برتری کو تسلیم کرلیا۔
خداوندمتعال نے اس آیت میں کہاہے کہ اگر تم سچے ہوتوان مسمیات کے نام بتاؤ اوروہ نام نہ بتاسکے اس سے ظاہرہوتاہے کہ فرشتے (نعوذباللہ) کسی نہ کسی لحاظ سے سچائی کے معیار سے الگ ضرورہیں اوریہ ملائکہ کی عصمت کے خلاف ہے۔اس کے جواب میں اتنا کہناکافی ہے کہ صدق کا وہ مفہوم جسکی وجہ سے اس کو کذب کے مقابل اورمتضاد سمجھا جاتاہے یہ لفظی اصطلا ہے اس لحاظ سے فرشتوں کوصرف صادق ہی کہاجاسکتاہے کیونکہ صدق اورکزب کا احتمال خبر میں ہوتاہے انشاء میں نہیں ہوتا‘ انساء میں صدق ہماصدق ہوتاہے اورفرشتوں نے اس سے پہلے جو کہاہے
أتجعل فیها ۔۔۔
(کیا تو زمین میں اس کو خلیفہ بنانے والاہے۔)
یہ جملہ ستفھامیہ ہے اس میں صدق وکذب کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لہذا مانناپڑے گاکہ یہ ان کی عصمت کے خلاف نہیں ہے۔اورخداوندمتعال کلام مخاطب کیساتھ کہتاکہ اگر تم سچے ہوتوان کینام بتاؤ یہ تسبنیہ اورتسبکیت کے عنوان سے ہے۔یایہ ہے کہ چونکہ وہ اپنے دل میں یہ خیال لاتے تھے کہ ہم سے بڑھ کر کوئی مخلوق نہیں ہے اورہم سب سے افضل وبرتر ہیں۔(۱)
____________________
(۱) انهم قالوافی انفسهم ماکنانطن ان تحلق الله خلقا اکرم علیه منانحن خوان الله وجیرانه واقرب الخلق الیهتفسیر عیاشی