9%

لیکن یہاں امتحان حافظے کا نہیں تھابلکہ یہ ذحانت کا امتحان تھا‘انہیں اسماء کی تعلیم دی گئی تھی اوران کے سامنے مسحیات کو پیش کیاگیاکہ ان کے ناموں کی تطبیق کرتیں ‘لہذا یہ عقل وفراست کاامتحان تھااوراس چیز کا سوال تھاجوانکو بتائی جانے والی حدود سے باہر تھا۔لہذا فرشتوں نے بارگاہ خداوندی میں اپنی کم علمی اور انکساری کااعتراف کرتے ہوئے عرض کیا۔

پروردگار ! جو کچھ تونے سکھایاہے ہم توفقط اسے ہی جانتے ہیں جبکہ اسماء کے حقائق اور معارف ہمیں نہیں سیکھائے گئے لہذا اسے ہم نہیں جانتے تو جب بھی کسی کو کسی چیز کی تعلیم دیتاہے تو وہ تیرے علم وحکمت اورمصلحت کے مطابق ہوتی ہے ہم مقام خلافت کے لائق نہ تھے لہذا تو نے ہمیں اسکی تعلیم نہ دی۔

( قَالَ یَاآدَمُ أَنْبِئْهُمْ بِأَسْمَائِهِمْ فَلَمَّا أَنْبَأَهُمْ بِأَسْمَائِهِمْ قَالَ أَلَمْ أَقُلْ لَکُمْ إِنِّی أَعْلَمُ غَیْبَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَأَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا کُنتُمْ تَکْتُمُونَ )

(اللہ) نے فرمایاہے اے آدم انہیں ان موجودات کے اسماء (واسراء ) سے آگاہ کرو جب اس نے انہیں آگاہ کیاتو(خدا) نے فرمایا۔کیا میں نے کہاتھاکہ میں زمین وآسمان کے غیب کو جاتاہوں اور جوکچھ تمہارے ظاھرو باطن میں ہے اس سے واقف ہوں۔

علم معیار خلافت:

گزشتہ آیات میں جب ملائکہ نے انسان کی ظاہری خلقت اور پہلے سے زمین پررہنے والی مخلوق کے حالات کا مشاھدہ کیاتھا تواللہ تعالیٰ سے سوال کیاتھاکہ آدم کس طرح خلیفہ بن سکتے ہیں یہ تو زمین پرفساد اورخون ریزی کریگاجبکہ ہم تیری تسبیح وتقدس کرتے ہیں کیاہم اس سے افضل نہیں؟ اس آیت میں خداوندعالم جواب دینے کیلئے حضرت آدم کے علم ‘باطنی استعداد اورلیاقت کو بیان فرمارہے ہے۔اورگویایہ بتاناچاہتاہے کہ معیار خلافت صرف تسبیح وتقدس نہیں بلکہ اس کے ساتھ علم بھی ضروری ہے۔