9%

یعنی وہ ذات کائنات اور اس میں موجود تمام جہانوں،نظاموں،سیاروں ،آسمانوں،زمینوں،جمادات،نباتات،حیوانات اور ملائک،جن اور انس نیز دیگر مخلوقات کی ان کے مناسب حال تدریجی طور پر تربیت کرتا ہے اور کمال کی منزل تک پہنچاتی ہے۔

اس سے عالمین کی تربیت پر ایک کلی نظر پیدا ہوتی ہے کہ کتنا بڑا اور پھیلا ہوا عمل ہے کہ خالق کے علاوہ اس کام کو کوئی انجام نہیں دے سکتا اسی لیے تمام حمد اور تعریفوں کو اسی ذٓت سے مخصوص کر نا ضروری ہے۔

( ۴) وحدت کلمہ

جب ذات،صفات،خالقیت اور تربیت میں وحدانیت الہی معلوم ہو گئی اور ہر روز نئے خدا اور ہر کام کے لیے علیحدہ علیحدہ خدا نیز قبلہ کا الگ الگ خدا ہو نے کی نفی کر دے گئی اور یہ حقیقت واضح طور پر سامنے آگئی کہ وہ اس ایک جہان ہی خالق نہیں بلکہ وہ ایسے بہت سے جہانوں کا خالق،مدبر اور پالنے والا ہے۔

اس سے ایک طرف سے ہر طرح کے شرکت کا سد باب کیا اور دوسری طرف اتحاد عالمی کی ایک مستحکم بنیاد قائم کر دی تاکہ سب لوگ وحدت کلمہ کے ساتھ ترقی وکمال کے مدارج طے کرتے ہوئے منزل مقصود تک پہنچیں۔

اگرچہ ابھی تک انسانیت تہذیب وتمدن کین انتہائی ترقی کے باوجود اس بنیاد پر کوئی مضبوط عمارت قائم نہیں کر سکی اور جب تک اس اخوات کا سنگ بنیاد رکھنے والے دین اسلام اور کتاب (قرآن ) کو عمومی طور پر تسلیم نہ کر لیا جائے اس وقت تک یہ عظیم مقصد حاصل نہ ہو گا۔

اس سلسلے میں قرآن کا وعدہ ہے کہ

( لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِۚ )

تا کہ اس دین کو ہر دین پر غلبہ عطاء کرے۔

یہ وعدہ حتمی ہے جو پورا ہو کر رہے گا جب حضرت حجت کا ظہور ہو گا اور دنیا کی تمام بے تابیاں اور پریشانیاں اس وقت ختم ہو جائیں گی۔اور ایمان۔نظم اور اتحاد عالم کی نہایت ہی شاندار عمارت بنے گی اور دنیا کے مضطربانہ اٹھتے ہوئے قدم آخر میں اس منزل پر پہنچ کر دم لیں گے اور اطمینان اور سکون کی فضا قائم ہو جائے گی۔