حضرت خدا وند متعال نے حضرت آدم اور جناب حواّ کو جنت میں داخل کرکے ارشاد فرمایا۔کہ اس جنت میں تمہارے لیے ہر قسم کی نعمتیں موجود ہیں۔آپ کیلئے آسائش ہے ‘ یہاں کوئی رنج وغم نہیں ہے۔یہاں دنیاوی زندگی گزارنے کی تمام ضروری چیزیں موجودہیں۔رہائش کیلئے جنت جیسا گھر ہے ‘تسکین کے لئے حواّ جیسی بیوی ہے اور کھانے پینے کیلئے جنت کی ہر چیز آپ کے اختیار میں ہے۔
آپ کو بالکل خود مختار منایاگیاہے اس جنت سے جو کچھ کھانا چاہو کھاو لیکن فلاں درخت کے قریب نہیں جانا(۱) اگر اپنی اختیار و مرضی سے اس کے قریب گئے تو تمہیں خسارہ اٹھانا ہوگااور جنت سے جانا ہوگااور یہ ظلم ہوگا۔(۲)
____________________
(۱) شجرہ ممنوعہ کی تفسیر کے سلسلہ میں علماء کرام کے درمیان اختلاف موجودہے قرآن مجید میں اسکے متعلق تو وضاحت موجود نہیں ہے البتہ روایات میں اسکاتزکرہ موجودہے کہ فلاں درخت کے قریب نہ جانا اوراس سے تناول نہ کرنا۔ مزید روایات میں ہے کہ شاید یہ درخت گندم ‘انگور‘ کافور اوربعض میں اسکے علاوہ اور چیزوں کا تزکرہ بھی ہے البتہ ان روایات کی اسناد میں خدشہ کیاگیاہے لہذا کہاجاسکتاہے یہ قشابھہ آیات میں سے ہے اور ہم صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایسادرخت تھا جسکی وجہ سے حضرت آدم اورحواّ کو جنت سے نکلنا پڑا۔
(۲) ظلم کا معنی وضع الشی فی غیر محلہ ہے اورقرآن مجید نے بھی اسکی یہ تعریف کی ہے ”ومن یتعد حد ودالله فاوٴ لاللک هم الظالمون “یعنی اللہ کی مقرر کردہ حدود سے قدم بڑھانے والے ظالم ہیں لیکن حد کو دیکھنا ہوگا کہ یہ واجب قرار دی گئی ہے یا مستحب اورارشاد ہے۔اس کا ظ سے ظلم کا حکم بھی مختلف ہوجائے گااور وہ ظلم جو حدو جوبی سے تجاوز ہووہ گناہ ہے جبکہ دوسری اقسام کا ظلم زیادہ سے زیادہ ترک اولیٰ “ ہوگا گناہ ہوگا۔