9%

اورسورہ طہ میں اکل شجرہ کے نیچے کو ترک جنت کر کے مشقت دنیوی میں پڑجانے سے تعبیر کیاہے کہ “

( فَقُلْنَا يَا آدَمُ إِنَّ هَٰذَا عَدُوٌّ لَّكَ وَلِزَوْجِكَ فَلَا يُخْرِجَنَّكُمَا مِنَ الْجَنَّةِ فَتَشْقَىٰ )

ٰ اوراس سے بعد والی آیات ‘آ یات اس جنت ک اوصف بیان کررہی ہیں کہ اس جنت میں نہ بھوک ہے نہ عریانی اور نہ پیاس ہے نہ سورج کی تپش‘اورایسی مرفہ زندگی والی جگہ نکلنے کو اللہ شقادت سے تعبیر کیاہے اس کا معنی یہ بنتاہے کہ اس شینان کے بھکارے میں آکر اکل شجرہ سے نہیں اس دنیا میں جاناپڑیگاجس بھوک پیاس تھکاوٹ وسختی جیسی مشکلات ہونگیں ایسی زندگی سے محفوظ رہنے کی خاطر جو حکم دیاجاتاہے وہ کسی طرح بھی مولوی نہیں ہوسکتابلکہ مختصر ارشاد وراہنمائی ہے اس کی مخالفت اپنے کو مشقت میں ڈالناہے مولیٰ کی نافرمانی نہیں ہے۔

دلیل : ۲

توبہ جب قبول ہوجائے تواس کا معنی یہ ہے کہ عبد پر کوئی گناہ نہیں ہے” التائب من الذنب کمن لاذنب له“ (۱) کویا توبہ کو قبول ہوجانے کے بعد کا وہی مقام تھاجو گناہ کرنے سے پہلے تھا۔

اگر اکل شجرہ والی نہی مولوی تھی اوتوبہ حضرت آدم سے ازگناہ تھی توجب توبہ قبول ہوگئی توحضرت آدم کو اسی جنت میں واپس لایاجاتاجس سے نکالے گئے تھے جبکہ انہیں توبہ کے قبول ہونے کے باوجود زمیں رکھا گیااس کا لازمی نیتجہ یہ ہے کہ وہ توبہ گناہ سے توبہ نہ تھی اووہ نہی جس کی

مخالفت پرانہیں جنت سے نکلاگیاحکم نہ تھا۔بلکہ وہ عرض خلقت آدم کی تکمیل کے لئے ایک سبب تھا جواکل شجرہ کے تکوینی اثر کے طور ظاہر ہوااورتوبہ گناہ کے اثر تکلیفی کو ختم کردیتی ہے لیکن اثر کوینی وضسی کو ختم نہیں کر سکتی۔

_____________________

بحوالہ میزان الحکمہ :ج۱:حدیث :۲۱۱۶