9%

دلیل : ۳

قلنا اهبطو ۔۔اوراللہ تعالی نے فرمایاہے ”فامایأتینکم منی هدی ۔۔۔۔

یہ کلمہ ان تمام تفصیلی شریتوں کو شامل ہے جو اللہ نے کتب ورسل کے ذریعے دنیا میں رائج کیں یہ اس چیز کی غمازی کرتاہے کہ دنیا میں انسان کے لئے جو پہلا قانون بنا “امایأتیکم منی هدی ً “ کا جملہ اسی طرف اشارہ کرہاہے۔ تواس کا معنی یہ جب حضرت آدم نے اکل شجرہ اس وقت ابھی قوانین شریعیت بطور تکلیف وضع نہیں ہوئے تھے تو پھر اس اکل شجرہ کے گناہ یا معصیت ہونے کا کوئی معنی نہیں ہے یہاں اگر کسی کے ذہن میں یہ سوال آئے کہ فرشتے تواس وقت مکلف تھے۔تبھی تو ابلیس کو سجد نہ کرنے پر روندادرگاالہی قرار دیاگیا جواب واضح ہے کہ فرشتوں کا محل تکلیف آسمان ہی تھا لیکن انسان کا محل تکلیف زمین ہے۔

علامہ سید علی نقی (رضوان اللہ علیہ ) کے فرمان کے مطابق نہ یہ حقیقی گناتھا اورنہ ہی توبہ ‘گناہ سے توبہ تھی بلکہ یہ صرف آدم کی جلالت کے لحاظ سے ایک بلند تر مرتبے سے پیچھے رہ جاناتھا۔جس کا احساس خدا کے مقرب بندوں اس سے کہیں زیادہ ہوتاہے جوایک عام آدمی سے بڑے گناہ سرزد ہونے اس کے ضمیر میں پیدا ہوتاہے۔

( قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْهَا جَمِیعًا فَإِمَّا یَأْتِیَنَّکُمْ مِنِّی هُدًی فَمَنْ تَبِعَ هُدَایَ فَلاَخَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلاَهُمْ یَحْزَنُونَ ) ( ۳۸)

ہم نے کہا! تم سب یہاں سے اترجاو۔اور جب آپ کے پاس میری طرف سے ہدایت آئے تو جواس کی پیروی کریں گے انہیں خوف ہوگا نہ ملال۔

اھبطواکا تکرارکیوں؟

علماء اعلام نے اس سلسلے میں کئی احتمالات ذکر کئے ہیں بعض علماء کے نزدیک یہ تاکید کے لئے پہلے بھی اترنے کاحکم دیاگیاتھااب دوبارہ تاکیداًحکم دیاجارہا ہے کہ زمین پراترجاو۔