ثانیاً۔یہ گزشتہ آیات کیساتھ بھی سازگار نہیں ہے کیونکہ پہلی مرتبہ اترنے کے حکم کے ساتھ ہی حضرت آدم سے کہاگیاتھا” ولکم فی الارض متقر ومتاع الی حسین “ ااس سے ظاہر ہوتاہے کہ زمین پراترنے کاحکم ہے کہ پہلے آسمان پر۔لہذا اگر یہ قول درست ہوتاتو اس وقت ضروری تھا کہ ’‘ولکم فی الارض مستقرومتاع الی حین “ والا حکم دوسرے اھبطوا کے بعد ہوتا۔
حضرت آدم اورحواّ کو زمین پر بھیجنے کے بعداللہ تبارک وتعالیٰ اولاد آدم کو مخاطب کرتے ارشاد فرمارہاہے جب بھی تمہارے پاس ہماری ھدایت رسول یا کتاب کی شکل میں آئے تو تم میں سے جو بھی اس ھدایت کی اتباع کریگا اسکے لئے کامیابی وکامرانی کی بشارت ہے۔
یعنی اگر انسان سعادت کی طرف قدم بڑھائے تو وہ صرراہ خدا کی طرف گامزن ہوں۔لہذا جو بھی ارشال رسل اورانزال کتب پر قلبی اعتقاد رکھتاہوگاانبیاء اورائمہ کے فرامین پر عمل بھی کرتاہوگاتواس کے لئے خوف وملال نام کی کوئی چیزنہ ہوگی ‘ وہ عذاب الہی سے محفوظ ومامون ہوگااوراپنی مراد یں برلائے گااورآخرت والے دن ہر قسم کی پریشانی سے دورہوگابلکہ اگر اسکے اعمال درست ہوئے اورخدا کی شریعیت کے مطابق چلتا رہا توجنت الفردوس میں انبیاء اورعلماء کے ساتھ محشور ہوگا۔
بہرحال انسان کو تقوی ٰ اختیار کرنا چاہیے اورشیطان سے دوری اختیار کرنا چاہیے انسان اسے اپنا سخت دشمن سمجھے اوراس سے ہوشیار رہے کیونکہ سب سے خطرناک دشمن وہی ہوتاہے جو نظر نہ آتاہو جبکہ شیطان انسان کو دیکھ رہاہے اورانسان شیطان کو دیکھنے سے قاصر ہے۔لہذا تقوی ٰ اختیار کرنا ‘ شیطانی وسوسوں سے دور رہنا ‘واجبات پر عمل کرنا محرمات ترک کرنا اورشریعت کے دوسرے لوازمات کو ملخوظ خاطر رکھان ہی ھدایت کی پیروی اورکوف ملال سے چھٹکاراکا موجب ہے۔