18%

ایک سوال اوراسکا جواب !

یہاں پر سوال یہ پیداہوتاہے کہ ‘ اس آیہ مبارکہ کی دوسے تودنیا میں حزن وملال نہیں ہونا چاہیے جبکہ دنیا میں مومن کیلئے کافر سے بھی زیادہ خوف وحزن ہے جیسے کہ آیات وروایات اس کو بیان کرتی ہیں کہ دنیا مومن کے لئے دارمشقت اورقید خانہ ہے۔جیسے کہ نبی کریم کا فرمان ہے

خص البلاء بالانبیاء ثم الاولیا ء ثم الامثل مالامتل

تو دنیا کی ظاہری صورتحال کو اس آیت مبارکہ کے ساتھ کیسے ہم آھنک کیاجاسکتاہے؟

جواب !

اس کوجواب یوں دیاجاسکتاہے آیات کی روسے دنیا کی سختی اورحزن اس کا لازمہ ہے جس میں کافر اورمومن شریک ہیں لیکن مومن کے عنوان نہیں بلکہ آزمائش وامتحان کے طور پر ہے اورکامیابی کی صورت میں اسکے لئے جنت جیسی نعمت سے نواز ا جائے گا جواس کے مصائب دنیاوی کی تلافی ہے۔

لیکن کافر کے لئے تلافی اورتدارک کاامکان نہیں ہے۔کیونکہ مومن نے تواپنے رب کے مقام ربوبیت کو پہچان کراس کے امکانات کی اس تعین پر پابندی کرکے تکالیف برداشت کیں کہ اسکااجراللہ کے ہاں محفوظ ہے۔تواس کاضمیر مطمن ہے شادی اسی وجہ سے اللہ اپنے مومن خالص بندے کو نفس مطمئنہ سے یاد فرماتاہے۔کہ( یاایها نفس المطمة ارجعی الی ربک راضة ًفرمضیه ) جبکہ کافر اولین مرحلہ اطاعت میں انکار کرکے اس اطمنان سے تہی دامن ہوگیاہے۔اوردنیا میں خوف وحزن مین مبتلاہے اورآخرت میں بھی اس کی تکالیف کاتدارک نہیں ہوگا۔

( وَالَّذِینَ کَفَرُوا وَکَذَّبُوا بِآیَاتِنَا أُوْلَئِکَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِیهَا خَالِدُونَ )

اورجو (ھماری ھدایت کا) انکارکریں گے اورہماری آیات کو جھٹلائیں گے وہ جہنمی ہیں اورہمیشہ جہنم میں رہے گے۔