اس آیت مبارکہ کی یہ خصوصیت ہے کہ آسمانی کتاب میں عبد پہلی دفعہ اپنے مالک کو بلا واسطہ پکارا ہے اور اس کو خطاب کرنے کا شرف حاصل کرتا ہے گرچہ انسان گذشتہ آیات میں مختلف مرا حل میں یہ اعزاز حاصل کر رہا ہے کہ اپنے مالک اور خالق سے صرف ”تم“ کہہ کر گفتگو کا آغاز کرے جس میں اپنا ئیت پائی جا تی ہے۔
قرآن مجید میں استعمال ہو نے والی پہلی ضمیر ”ایاک “ ہے یہ اس آیت مبارکہ کی خصوصیت ہے کہ سب سے پہلی ضمیر اس آیت میںآ ئی ہے اور وہ بھی خدا کے لئے استعمال ہوئی ہے اور ضمیر بھی ضمیر مخاطب ہے اور یہ ضمیر ایک آیت میں دو مرتبہ آئی ہے۔
ضمیر کا استعمال عظمت مقام معبود کی وجہ سے ہے اور اس میں یہ مفہوم ہے معرفت اور شناخت کے مراحل طے ہو چکے ہیں لہذا اب اس ذات برتر کے لیئے ضمیر استعمال ہو رہی ہے اور ضمیر خطاب اس لیئے ہے کہ تعلق کا اظہار کیا جائے ہم تیرے ہیں اور تیری ہی عبادت کرتے ہیں۔
مطلوب الہی اور عبد کا پہلا تذکرہ اس آیت میں ہے۔ مقصد تخلیق بھی عبادت ہے اور خدا بھی چاہتا ہے کہ انسان عبادت کریاور اطاعت کی زندگی گزارے لہذا قرآن مجید میں پہلا مقام ہے کہ جہاں الہی طلب جو کہ عبادت ہے اس کا تذکرہ ہو رہا ہے کہ ہم تیرے حکم کے مطابق صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں۔
پس مرضی الہی کے مطابق عمل کرتے ہیں۔اور پھر عبد اپنی طلب کا اظہار بھی کرتا ہے کہ بار الہی ہم تمام معاملات میں تم سے ہی مدد طلب کرتے ہیں لہذا یہ عبد کی پہلی طلب اور دعا قرار پائی کہ جو قران مجید کی اس آیت کا خاصہ ہے۔