غیب اور شہود ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں کیونکہ عالم محسوسات کا نام شہود ہے اور محسوسات سے ماورا دنیا ہماری حس سے پوشیدہ ہے یعنی ہر غیر محسوس چیز جو ہماری نگاہوں سے اوجھل ہے اسے غیب کہتے ہیں،لیکن ہر غیب پر ایمان لان ایمان کا جز نہیں ہے بلکہ اس سے ایسے امور مراد ہیں جو غائب بھی ہیں اور جزو ایمان بھی ہیں مثلا خداوند متعال کی با برکت ذات پر ایمان رکھنا ضروری ہے۔جیسا کہ قرآن مجید میں ہے۔
( عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ ) (۱)
(خداہی)غیب اور شہود کو جاننے والا ہے
قرآن مجید خدا کی صفت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے
( لَّا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ )
ہماری آنکھیں اسے نہیں دیکھ سکتیں جبکہ وہ ہمیں دیکھتا ہے(۲) ۔
اس مقام پر صرف ذات پروردگار پر ایمان لانا مراد نہیں ہے کہ غائب کا ایک وسیع معنی ہے یعنی قرآن مجید،قیامت،وحی،فرشتے،اور عالم حس سے ما ورا ہر وہ چیز جس پر ایمان لانا ضروری ہے سب اس مفہوم غیب میں شامل ہیں تفسیر اھل بیت علیہم السلام میں اس غیب سے حضرت امام زمانہ عج
اللہ تعالی الشریف کی غیبت مراد ہے۔(۳)
جیسا کہ حضرت امام جعفر علیہ السلام ” غیب “ پر ایمان کی لانے کی تفسیر کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں
من آمن بقیام القائم ( علیه السلام ) انه حق
جو شخص بھی قیام قائم (عجل اللہ الشریف) پر ایمان لائے اور انہیں حق سمجھے وہی غیب پر ایمان رکھنے والا ہے۔(۴)
_____________________
تفسیر کبیر ج۲ ص۰۰۰۲۸منہج الصادیقین ج۱ ص ۱۳۷ و نور الثقلین ج ۱ ص ۳۱،
۰۰۰میزان ج ۱ ص ۴۶ ۰۰۰