9%

ایمان فعل اختیاری ہے

قرآن مجید کی ہدایت کا دروازہ فقط جاہلانہ تعصب اور عناد رکھنے والے کفار کے لیئے بند ہے لیکن جو لوگ (کفار) عناد اور تعصب نہیں رکھتے ان کے لیئے ہدایت کا دروازہ اب بھی کھلا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر اس سے مراد کفروں کے تمام طبقات ہوتے تو پھر انہیں قرآنی ہدایت ہی نصیب نہ ہو سکتی حضرت کے مبعوث ہونے کا کوئی فائدہ نہیں تھا جبکہ آپ تو رحمت العالمین بن کر آئے ہیں، آپ نے ہر طبقہ کو اسلام کی دعوت دی ہے آپ کے انذار اور بشارت کی وجہ سے انہوں نے اسلام قبول کیا ہے اور جن لوگوں نے اپنے نطریات اور عقائد کو چھوڑ کر ایمان کو اختیارکیا ہے انہیں ہدایت نصیب ہوتی ہے۔

جنہوں نے عناد اور سو اختیار کی وجہ سے اپنے باطل نطریات کو نہیں چھوڑا اور اسلام سے دشمنی اور بغض کو باقی رکھا انہیں یہ ہدایت نصیب نہیں ہو سکتی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان ایک اختیاری فعل ہے۔

( خَتَمَ اللهُ عَلَی قُلُوبِهِمْ وَعَلَی سَمْعِهِمْ وَعَلَی أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِیمٌ ) ( ۷)

خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا ہے اور ان کے لئے بہت بڑا عذاب ہے۔

کفار کی ضلالت :

الف: دلوں اور کانوں پر مہر۔

ب: تشخیص کی قدرت نہیں رکھتے۔

ج :مستحق عذاب

خدا وند عالم اس آیت میں کفار کی دو اہم نشانیاں بیان فرمارہا ہے جس میں واضح طور پربتایا گیا ہے کہ یہ لوگ تعصب اور عناد میں اس طرح ڈوبے ہوئے ہیں کہ خدا نے ان کے دکوں اور کانوں پر مہر لھا دی ہے اور آنکھوں پر پردہ ڈال دیا گیا ہے کیونکہ قلب کا فائدہ حق کو درک کرنا ہے۔سماعت کا ثمرہ آیات قرآنی سننا ہے اور بصارت کا نتیجہ معجزات خداوندی کو دیکھنا ہے۔یہ تینوں خصوصیا ت ان کفار میں موجود نہیں ہیں۔لہذا اس سے معلوم ہوا کہ یہ کھبی بھی ایمان نہیں لائیں گے اور اپنی ضلالت پر مصر رہیں گے۔