یہ ایک فطری امر ہے کہ انسان جب ایک غلط کام کو مسلسل کرتا رہتا ہے تو اس سے مانوس ہو جاتا ہے اور آہستہ آہستہ یہ اس کی عادت بن جاتی ہے اور روح انسانی کا جزو بن جاتی ہے اور اسے اپنی ذمہ داری سمجھنے لگتے ہیں جب معاملہ یہاں تک پہنچ جائے تو وہ حس تشخیص ہی کھو بیٹھتے ہیں اور ان کی آنکھوں کے سامنے پردہ آجاتا ہے یہ لوگ اپنی آنکھوں سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے،عبرت حاصل نہیں کرتے،صراط مستقیم کو اختیار نہیں کرتے بلکہ حق کو دیکھنے کے باوجود اپنی آنکھوں پر گمراہی اور کفر کا پردہ ڈال رکھا ہے۔
لیکن قیامت والے دن بہت سے حقائق ان کے سامنے ہونگے۔عذاب الہی کو درک کریں گے۔اور یہ بھی جانتے ہونگے کہ یہ ان کے سوء اختیار کی وجہ سے ہے دنیا میں خود کو اندھا بنا رکھا تھا اگرچہ ان کی آنکھیں جمال الہی کا مشاہدہ نہیں کر سکتیں لیکن قیامت والے دن تیز نگاہوں سے عذاب الہی کا ضرور مشاہدہ کریں گی جیسا کہ خدا وندعلم فرماتا ہے۔
( لَّقَدْ كُنتَ فِي غَفْلَةٍ مِّنْ هَٰذَا فَكَشَفْنَا عَنكَ غِطَاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ )
یقینا تم غفلت میں تھے ہم نے تمہارے پردوں کو ہٹا دیا ہے اب تمہاری نگاہ تیز ہو گئی ہے۔
جس طرح خدا وند عالم نے تقوی طاہنے والوں کا انعام ہدایت اورکامیابی قرار دیا تھا اسی طرح کفار کی سزا یہ ہے کہ قیامت والے دن انہیں بہت بڑے عذاب کا سامنا ہو گا۔