9%

یاد رکھو کہ یہی لوگ فساد پھیلانے والے ہیں ان کے کردار میں اصلاح کا نام و نشان تک نہیں ہے منافقت کے غلط اثرات ان کی روح، جان،رفتار،و کردار میں ظاہر ہیں دنیا و آخرت میں گمراہی ان کا مقدر بن چکی ہے،ان میں شعور واقعی کا فقدان نمایاں طور پرظاہر ہے۔ یہ فساد پھیلاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم درست کام کر رہے ہیں یہ بے شعور مفسد ہیں ان کا اسلام کے اصولون پر قلبی اعتقاد نہیں ہے یہ لوگ نا سمجھی کی وجہ سے ان غلط کاموں کو درست سمجھتے ہیں ان کے نتائج پر غور نہیں کرتے حالانکہ ان غلط کامون کی لپیٹ میں اکثر خود بھی آجاتے ہیں۔

لیکن اگر یہ لوگ صرف اپنی منافقت پر باقی رہتے،اسالمی اسولوں کو دل وجان نہ مانتے اور صرف ان گلط کاموں کے نتائج پر غور کر لیتے تو اس مفسدانہ روش کو ضرور ترک کر دیتے لیکن اپنے نفس کو دھوکہ دینے اور اپنے فساد کو محسوس نہ کرنے کی وجہ سے یہ بے شعور مفسد ہیں۔

( وَإِذَا قِیلَ لَهُمْ آمِنُوا کَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ کَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ أَلاَإِنَّهُمْ هُمْ السُّفَهَاءُ وَلَکِنْ لاَیَعْلَمُونَ )

جب ان سے کہا جاتا کہ اس طرح ایمان لے آؤ جس طرح دوسرے لوگ ایمان لائے ہیں تو کہتے ہیں کیا ہم بیوقوفوں کی طرح ایمان لے آئیں آگاہ ہو جاؤ یہی لوگ بیوقوف ہیں لیکن جانتے نہیں ہیں۔

دعوت ایمان

ایمان کا زبانی کلامی اظہار تو یہ منافق بھی کیا کرتے تھے لیکن چونکہ اسلامی اصولوں کو دل سے نہ مانتے تھے اس وجہ سے انہیں کہا جا رہا ہے کہ عام انسانوں کی طرح ایمان لے آؤ جو صرف خدا کے لیئے ہو اس میں نفاق کی بو تک نہ ہو اور عقل و شعور کا ثبوت دیتے ہوئے ایسا ایمان لے آؤ کہ انسان کہلوانے کے حقدار بن سکو اور تمہارا کوئی عمل بھی انسانیت کے خلاف نہ ہو۔اس آیت میں یہ حکم نہیں دیا گیا کہ مومنین جیسا ایمان لے آؤ بلکہ کہا گیا ہے کہ عوام الناس جیسا ایمان لے آؤ کیونکہ انہیں ابھی کفر و نفاق سے نکال کر ایمان کے کم ترین درجہ کی طرف لانا مقصود ہے جبکہ درجہ کمال تک پہنچنے کے لیئے تو انہین کئی مراحل طے کرنے ہوں گے بہرحال خلوص دل کے ساتھ عوام الناس جیسا ایمان لانے سے کفر نفاق کی وادی سے نکل کر مسلمان کہلوا سکیں گے۔