یعنی یہ اوامر الہیہ،حجج بنیہ اور واضح دلائل میں تفکر نہیں کرتے،خدا نے انہیں جو فہم کی قوت عطا ء فرنائی ہے یہ عناد اور حق دشمنی میں استعمال نہیں کر سکتے جیسا کہ خدا وندعالم فرماتا ہے
( لَهُمْ قُلُوبٌ لَّا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لَّا يَسْمَعُونَ بِهَا ) ( اعراف آیت ۱۷۹)
ان کے پاس دل تو ہیں مگر ان سے سمجھتے نہیں،ان کی آنکھیں ہیں مگر دیکھتے نہیں ہیں ان کے کان ہیں مگر اس سے سنتے نہیں ہیں۔
یعنی وہ اس معنی میں بہرے نہیں ہیں کہ ان میں سننے کی طاقت نہیں ہے بلکہ وہ ان کانوں سے صدائے حق سننے کا کام نہیں لیتے اس لئے وہ بہرے ہیں ان کی زبانیں ہیں مگر تعصب،عناد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے کلمہ حق کے ساتھ گویا نہیں ہوتیں اس عنوان سے یہ گونگے ہیں،ان کے دیکھنے والی آنکھیں بھی ہیں لیکن ان سے آیات بینات کو نہیں دیکھتے تعصب کی وجہ سے انہیں جلوہ حق نظر نہیں آتا اس لحاظ سے یہ اندھے ہیں۔
یعنی یہ لوگ اس مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ اب ان کا ایمان کی طرف پلٹنا ممکن نہیں رہا کیونکہ انہوں نے گمراہی کو ہدایت کے بدلے میں خرید لیا تھا لہذا ضلالت نفاق سے یقینی ہدایت کی طرف ان کا لوٹنا محال ہے انہوں نے معرفت الہی جیسا اساسی سرمایا اپنے ہاتھ سے دے دیا ہے لہذا اب ان کا ہدایت کی طرف لوٹنے کا راستہ بند ہو گیا ہے اور یہ کائنات کی بد ترین مخلوق کہلوانے کے حقیقی حقدار ہیں۔
( أَوْ کَصَیِّبٍ مِنْ السَّمَاءِ فِیهِ ظُلُمَاتٌ وَرَعْدٌ وَبَرْقٌ یَجْعَلُونَ أَصَابِعَهُمْ فِی آذَانِهِمْ مِنْ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِ وَاللهُ مُحِیطٌ بِالْکَافِرِینَ ) ( ۱۹)
یا (ان کی مثال) آسمان کی اس بارش کی ہے کہ جس میں تاریکیاں اور گرج چمک ہو موت کے ڈر سے اس کی کڑک دیکھ کر کانوں میں انگلیاں دے لیتے ہیں حالانکہ اللہ کافروں کو ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے۔