مسئلہ امامت پر بحث کی ضرورت
بعض اوقات اسلام کے بنیادی اصولوں سے بالکل ناواقف اور کم علم لوگ بڑی سنجیدگی سے اسلامی مسائل پر رائے زنی کرتے ہیں۔اس کا نتیجہ سوائے نقصان کے اور کچھ نہیں ہوتا کیونکہ جب بھی لاعلمی اور عدم آگاہی کی بنیاد پر کسی موضوع پر اظہار خیال کیا جائے تو پریشانی افکار اور پراگندگی اذہان کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیںآ تا۔
افسوس کہ یہ علم سے بے بہرہ لوگ، دین اسلام کے دو اہم مسائل یعنی امامت اور رہبری پر ماضی میں بھی اظہار خیال کرتے رہے ہیں اور اب بھی کررہے ہیں۔ اس سے بُرے عزائم رکھنے والے لوگوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ وہ ان لوگوں سے اپنی وابستگی کا اعلان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ امامت اور خلافت کے بارے میں کوئی بات کرنا، یا رسول پاک کے انتقال کے بعد کس کو زمام حکومت سنبھالنا چاہئے تھی؟ اس پربحث کرنا زمانہ گزشتہ کی بات ہے جسے کئی صدیاں گزر چکی ہیں۔ لہٰذا اس پر بحث کرنے کا کوئی نتیجہ یا فائدہ نہیں ،کیونکہ اس کی حیثیت صرف تاریخی رہ گئی ہے۔
اس طرح کے نتائج نکالنے والوں پرحقائق واضح کرنے کی ضرورت ہے ، اس لئے ذیل میں چند نکات پیش خدمت ہیں جو اس طرح کے سوالات اور شبہات کے روشن جوابات ہیں:
اوّل: گو مسلمانوں کی امامت اور رہبری جیسے اہم مسائل رسول خدا کی وفات کے بعد بہت پرانے ہوچکے ہیں اورانہیں صدیاں گزر چکی ہیں لیکن ان پر بحث کرنا بہت ہی اہم ہے۔ کیونکہ مسلمانوں اور حق طلبوں کی تاریخ اس سے وابستہ ہے۔ یہ تو واضح ہے کہ اگر ان موضوعات پر کوئی بحث اور تحقیق نہ ہو تو لوگوں کو صراط مستقیم کا سراغ نہیں مل سکتا بلکہ آہستہ آہستہ وہ راہ حق سے دور ہوتے جائیں گے اور حقائق اسلام اُن سے پوشیدہ رہیں گے۔ آئمہ معصومین (پیغمبر اسلام کے برحق نائبین) کو نہ پہچاننے کی وجہ سے بہت سے اسلامی فرقے غلط راستوں پر چل پڑے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے امامت اور رہبری جیسے اہم مسائل کیلئے اُن تفاسیر اور روایات نبوی سے مدد لی جن کے لکھنے والے کسی نہ کسی اعتبار سے قابل اعتماد نہ تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان مسائل پر اُن کا نظریہ نہ تو قرآن پاک سے مطابقت رکھتا ہے اور نہ ہی معتبرروایات سے۔