21%

دوسرا: عقلی دلائل کی بنیاد پر یہ ثابت ہے کہ دین اسلام میں امام کا انتخاب خدائے پاک کی رف سے ہونا چاہئے نہ کہ لوگوں کی طرف سے۔ صرف اور صرف اسی ایک نکتہ پر اگرتمام مسلمانان عالم تحقیق کریں اور توجہ دیں کہ اللہ تعالیٰ نے نبی پاک کے بعد امام اور ولی کے طور پرکس کا تعارف کروایا ہے؟ تاکہ اُس کی اطاعت اور پیروی کرکے سعادت اُخروی پر فائز ہوسکیں۔ مختصراً ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ امامت کے موضوع پر تحقیق کرنا انتہائی ضروری ہے۔

انتخاب امام پر سنی اور شیعہ حضرات کا نظریہ

نبی کے بعد امام کا انتخاب کیسے کیا جائے، اس کو جاننے کیلئے ہم اہل سنت اورشیعہ حضرات دونوں کے نظریات کا الگ الگ جائزہ لیں گے اور اُن کو عقل و منطق کی کسوٹی پر

پرکھیں گے۔

انتخاب امام کیلئے علمائے اہل سنت کا نقطہ نظر

علمائے اہل سنت کے نزدیک امام کا انتخاب ایک اجتماعی مسئلہ ہے جو تقریباً ہر معاشرے میں پایا جاتا ہے۔ یہ مسئلہ زمانہ قدیم سے لے کر آج تک دنیا کی تمام ملتوں میں پایاجاتا ہے۔ اس کی مثال کسی جمہوری ملک کے ایسے سربراہ کی سی ہے جسے ایک خاص عرصہ اور مدت کیلئے وہاں کے رہنے والے چنیں۔ لہٰذا اہل سنت حضرات مقام امامت اور رہبری کو صرف عمومی حیثیت دیتے ہیں اور لوگ یا وہ افراد جن کے ہاتھ میں زمام اقتدار ہو، اس مقام اور منصب کیلئے کسی فرد کو چن سکتے ہیں۔

انتخاب امام کیلئے شیعہ علماء کا نقطہ نظر

علمائے شیعہ اور مکتب شیعہ کی نظر میں امامت اللہ کا عطا کردہ منصب ہے اور یہ اللہ ہی کا کام ہے کہ جس فردکو اس مقام اور عہدہ کے لائق اور اس عظیم ذمہ داری کے قابل سمجھے، اُس کا تعارف بطور امام کروائے۔ اس کی دلیل واضح ہے کیونکہ اگر امام اور پیغمبرکو فضائل ، مراتب اور ذمہ داریوں کے اعتبارسے دیکھا جائے تو اُن میں سوائے نزول وحی کے اور کوئی فرق نہیں کیونکہ وحی صرف نبیوں اور رسولوں کیلئے مخصوص ہے۔