21%

۳۔کلام حضرت عثمان بن عفان

(الف)رَجَعَ عُثْمٰانُ اِلٰی عَلِیٍّ فَسَأَ لَهُ الْمَصِیْرَاِلَیْهِ،فَصٰارَاِلَیْهِ فَجَعَلَ یَحُدُّ النَّظَرُ اِلَیْهِ،فَقٰالَ لَهُ عَلِیٌّ:مٰالَکَ یٰاعُثْمٰانُ؟مٰالَکَ تَحُدُّ النَّظَرَ اِلَیَّ؟قٰالَ:سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰهِ یَقُوْلُ:النَّظَرُاِلٰی عَلِیٍّ عِبَادَةٌ ۔

”حضرت عثمان،حضرت علی علیہ السلام کی طرف پلٹے اور اُن سے درخواست کی کہ وہ اُن کی طرف آجائیں۔ حضرت علی علیہ السلام، حضرت عثمان کی طرف آئے۔ اُس وقت حضرت عثمان نے حضرت علی علیہ السلام کی طرف دیکھنا شروع کیا۔ حضرت علی علیہ السلام نے حضرت عثمان سے پوچھا کہ اے عثمان!تمہیں کیا ہوگیا ہے؟ تم میری طرف کیوں دیکھ رہے ہو؟تو حضرت عثمان نے جواب دیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ رسول خدا نے فرمایا کہ’علی کے چہرے کی طرف دیکھنا عبادت ہے‘۔“

حوالہ جات

۱۔ ابن کثیر، کتاب البدایہ والنہایہ میں،جلد۷،صفحہ۳۵۸،باب فضائل علی علیہ السلام۔

۲۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق میں، باب حال امام علی ،جلد۲،صفحہ۳۹۳(شرح محمودی)۔

۳۔ سیوطی، کتاب تاریخ الخلفاء میں،صفحہ۱۷۲۔

(ب)۔ خلیفہ سوم حضرت عثمان نے تین مرتبہ حضرت علی علیہ السلام کو دعوت دی کہ وہ اُن کے ساتھ تعاون کریں۔ پہلی مرتبہ ۲۲ھ میں یعنی اُسی سال جب وہ خلیفہ بنے۔ دوسری مرتبہ ۲۷ھ میں اور تیسری مرتبہ۳۲ھ میں۔ حضرت علی علیہ السلام نے کسی دفعہ بھی حضرت عثمان کی کسی دعوت کو سیاسی تعاون کیلئے قبول نہ کیا۔ البتہ ہر دفعہ حضرت علی علیہ السلام یہی جواب دیتے رہے کہ ایک کام واجب ہے یعنی قرآن کی جمع آوری اور اُس کو ایک کتابی شکل دینا۔ میں اس واجب شرعی کام کیلئے تم سے تعاون کرنے کیلئے تیار ہوں۔

حوالہ

فواد فاروقی، کتاب پچیس سال خاموشی علی علیہ السلام، نقل از روڈولف زائیگر کی کتاب”علم اور تلوار کا خداوند“۔