ابن ابی الحدید معتزلی
”میں اُس شخص کے بارے میں کیا کہوں کہ جس پر تمام فضائل انسانی کی انتہاہوجاتی ہے۔ تمام اسلامی فرقے اُسے اپنا سمجھتے ہیں۔ وہ تمام خوبیوں کا مالک ہے اور تمام فضیلتوں کا سرچشمہ ہے۔ وہ پہلوں میں کامیاب ترین شخص تھا اور بعد میں آنے والوں میں اگر کوئی فضیلت دیکھی گئی تو تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ خوبی بھی وہاں سے ہی شروع ہوئی۔ پس چاہئے کہ خوبیاں اُسی پر اکتفا کریں اور اُس جیسے کی اقتداء کریں“۔
حوالہ ابن ابی الحدید،شرح نہج البلاغہ، جلد۱،صفحہ۱۶۔
ابن ابی الحدید اپنے قصیدہ عینیہ جو کہ اُس کے سات قصیدوں میں بہترین قصیدہ ہے اور وہ اس کو سونے کے پانی کے ساتھ مولیٰ علی علیہ السلام کے روضے پر لکھنے میں سالہا سال مصروف رہا، اُس میں کہتے ہیں:
”میں نے اُس برق سے جس نے رات کی تاریکی کو پھاڑ دیا، مخاطب ہوکرکہا:
اے برق! اگر تو سرزمین نجف میں نہیں تو بتا کہاں ہے؟ کیا تجھے پتہ ہے کہ تجھ میں کون کونسی ہستیاں پوشیدہ ہیں؟
موسیٰ بن عمران، عیسیٰ مسیح اور پیغمبر اسلام اس میں ہیں اورنور خدائے ذوالجلال تجھ میں ہے بلکہ جو بھی چشم بینا رکھتا ہے،آئے اور دیکھ لے۔
خدا کی قسم!اگر علی نہ ہوتے تو نہ تو زمین ہوتی اور نہ ہی اُس پر کوئی مرد ہوتا۔
قیامت کے روز ہمارا حساب کتاب اُسی کے وسیلہ سے خدا کے حضور پیش کیا جائے گا۔
قیامت کے ہولناک دن وہی ہمارا ایک مددگار ہوگا۔
یا علی !میں آپ ہی کی خاطر مکتب اعتزال کو بڑا سمجھتا ہوں اور آپ ہی کی خاطر سب شیعوں کو دوست رکھتا ہوں۔
حوالہ
ابن ابی الحدید، کتاب”علی علیہ السلام،چہرئہ درخشان اسلام“،حصہ پیش لفظ،صفحہ۹۔