اس کے علاوہ اگر امام معصوم نہ ہو تو دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہوجائے گا کہ امام سے گناہ سرزد ہونے کی صورت میں لوگوں کے پاس دو راستوں کے علاوہ اور کوئی راستہ نہ ہوگا:
پہلا راستہ
لوگ امام کو اُس کے گناہ کرنے کی وجہ سے تنبیہ کریں اور آئندہ کیلئے منع کریں۔ اس صورت میں امام اپنے منصب اعلیٰ سے پستی میں گر جائے گا اور لوگوں کا اُس پر اعتماد اٹھ جائے گا۔ اُس کے احکام دینی و دنیوی میں کوئی اثر باقی نہیں رہے گا۔ اس طرح اُس کے امام ہونے کا فائدہ زائل ہوجائیگا۔
دوسرا راستہ لوگ امام کو اُس کے گناہ پر منع نہ کریں ۔ اس صورت میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا وجود معاشرے میں ختم ہوجائے گا جو بغیر کسی شک کے مزید خرابیوں کا راستہ ہے۔امام کی تو سب سے بڑی ذمہ داری ہی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے تاکہ شریعت دین کی حفاظت کی جاسکے۔ اگر امام بھول چوک سے بھی خطا کر بیٹھے تو لوگوں کو اُس کے کسی بھی حکم پر حکم خدا کے مطابق ہونے پر شک رہے گا۔
لہٰذادرج بالا بحث سے ثابت ہوا کہ یہ راستہ بھی ٹھیک نہیں۔
عہد خدا ظالموں تک نہیں پہنچ سکتا
امام کے معصوم ہونے کی ایک اور محکم دلیل قرآن سے بھی ثابت ہے۔ سورئہ مبارکہ بقرہ کی آیت ۱۲۴ میں ارشاد خداوندی ہے:
( لَایَنَالُ عَهْدِی الظّٰلِمِیْنَ )
”میرا عہد(امر امامت و رہبری) ظالموں تک نہیں پہنچے گا“۔