سلیمان کتانی(ایک عیسائی لبنانی دانشور)
”مہاجرین کی اوّلین شخصیات میں سے علی علیہ ا لسلام سب سے زیادہ معروف تھے۔ انہوں نے بہت سی جنگوں اور معرکوں میں فتح حاصل کرکے اپنے نام کا سکہ بٹھادیا تھا۔ لیکن ان کامیابیوں سے بھی قیمتی چیز یہ تھی کہ انہوں نے پیغمبر اسلام کے دل میں ایک مقام بنالیا تھا۔ وہ پیغمبر اسلام ہی کے تربیت یافتہ تھے۔ وہ اُن کے دوست بھی تھے۔ ایسے ساتھی بھی تھے جو کبھی جدا نہ ہوئے۔ وہ (حضرت علی علیہ السلام) پیغمبر اسلام کی بیٹی سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے ہمسر بھی تھے۔ پیغمبر اسلام کی عظیم بیٹی جو اپنے والد کو سب سے زیادہ عزیز تھی، وہ(علی علیہ السلام) حسن و حسین کے والد بزرگوار بھی تھے جن سے نسل پیغمبر چلی۔ وہ سب سے پہلے ایمان لانے والے تھے۔ وہ دین کے سب سے طاقتور محافظ ، شجاع ترین حامی اور مستحکم جنگجو تھے۔ وہ سب سے زیادہ عقلمند،حالات کی نزاکت کو سمجھنے والے رہبر، بے نظیرمقرر اور دین کا بہترین دفاع کرنے والے تھے۔ان تمام حقیقتوں کو دیکھتے ہوئے پیغمبر اسلام خدا سے دعا کرتے ہیں:
’پروردگار! ہرکوئی جو علی کو دوست رکھے، تو بھی اُسے دوست رکھ اور جو اُس سے دشمنی رکھے، تو بھی اُس سے دشمنی رکھ۔ علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں۔ علی قرآن سے ہے اور قرآن علی سے ہے‘
حوالہ کتاب’امام علی ، مشعلی و د ژی‘، مصنف:سلیمان کتانی، ترجمہ جلال الدین فارسی،صفحہ۳۴۔
”جتنے بھی فضائل و خصائل علی علیہ السلام میں اکٹھے ہو گئے تھے، وہ جب منظر عام پر آئے تو انسان کی عظمت بلند ہوئی اور یہ علی علیہ السلام ہی کی مرہون منت ہے“۔
حوالہ
کتاب’امام علی ، مشعلی و ژری‘ مصنف:سلیمان کتانی،ترجمہ جلال الدین فارسی،صفحہ۸۷۔