امین نخلہ(ایک لبنانی عیسائی معروف دانشور)
”تم چاہتے ہو کہ میں علی علیہ السلام کے بلیغ ترین کلام میں سے ایک سو کلمے(اقوال) چن لوں۔ میں گیا اور نہج البلاغہ کو تھام لیا۔ ورق پر ورق الٹتا گیا مگر خدا کی قسم! میں نہیں جانتا کہ اُن کے سینکڑوں ارشادات میں سے ایک سو کلمے(اقوال) بلکہ ایک کلمہ(قول) بھی کیسے چنوں! میں محسوس کرتا ہوں کہ ایک یاقوت کو باقی لعل و گوہر سے کیسے منتخب کیا جائے۔ بس یہی کام میں نے کیا۔ جب میں ایک یاقوت تلاش کررہا تھا تو میری نظر یں اُس کی چمک اور گہرائی میں کھو گئیں۔
سب سے زیادہ حیرت والی بات میرے لئے یہ تھی کہ میں گمان نہیں کرتا کہ علم و دانش کے اس منبع سے خود کو جدا کرسکوں گا۔
اس دفعہ تو ان سو کلموں(اقوال) کو لے لو اور یاد رکھو کہ یہ علم و دانش کی نورانی کان میں سے صرف چند نمونے ہیں یا ایسے کہوں کہ باغ میں سے ایک شگوفہ ہے۔ ہاں! ادبیات عرب سے آشنا لوگ جانتے ہیں کہ نہج البلاغہ ایک نعمت الٰہی ہے جس کی وسعت سو کلموں سے کہیں زیادہ ہے“۔
حوالہ
”داستان غدیر“،صفحہ۲۹۳اور یہ کتاب”۱۷رمضان“ سے نقل کی گئی ہے۔
ایک عرب دانشور کا قول
”اگرحضرت علی علیہ السلام ابن ملجم کے ہاتھوں شہید نہ ہوتے تو عین ممکن تھا کہ وہ اس دنیا میں بے انتہا لمبی زندگی پاتے کیونکہ انہوں نے زندگی کے ہر شعبہ میں اور اپنے وجود میں کمال کا اعتدال قائم کردیا تھا“۔
حوالہ کتاب”این است آئین ما“،مصنف: مرحوم کاشف الغطاء، ترجمہ و شرح:حضرت آیت اللہ ناصر مکارم،صفحہ۱۹۳۔