7%

۱۱۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب۸۶۔

۱۲۔ حموینی ، کتاب فرائد السمطین، باب۲۶،جلد۲،صفحہ۱۲۰۔

۱۳۔ ابن اثیر، کتاب اسد الغابہ حبیب ابن ابی ثابت کے تراجم میں، جلد۵،صفحہ۳۶۷۔

۱۴۔ حاکم، کتاب المستدرک میں، جلد۳،صفحہ۱۷۲ اور بہت سے علمائے اہل سنت۔

گیارہویں آیت

علی نفس رسول ہیں(علی اور اہل بیت آیت مباہلہ میں)

( فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَ نَا وَاَبْنَآءَ کُمْ وَنِسَآ ءَ نَا وَ نِسَآ ءَ کُمْ وَاَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَکُمْ قف ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَ ۔)

”پس آپ کہہ دیجئے کہ آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں اور تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ اور ہم اپنی عورتوں کو(بلائیں)اور تم اپنی عورتوں کو(بلاؤ) اور ہم اپنے نفسوں کو(بلائیں) اور تم اپنے نفسوں کو(بلاؤ) پھر ہم خدا کی طرف رجوع کریں اور خدا کی لعنت جھوٹوں پر قرار دیں“۔(سورئہ آل عمران:آیت۶۱)۔

تشریح

تمام مفسرین اور محدثین اہل سنت اور شیعہ کے مطابق یہ آیت (جو آیت مباہلہ کے نام سے مشہور ہے)اہل بیت کے حق میں نازل ہوئی ہے۔ اس میں ”اَبْنَاءَ نَا“سي امام حسن اور امام حس ین مراد ہیں،”نِسَاءَ نَا “سے فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور”اَنْفُسَنَا“ سے علی ابن ابی طالب علیہما السلام مرادہیں۔

روایات لکھنے سے پہلے ہم مباہلہ کے واقعہ کو مختصراً بیان کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔