4%

''جو را توں کو اٹھکر خدا کی آیتو ں کی تلاوت کر تے ہیں ''اور جب وہ قر آن سے آشنا ہو جا تے ہیں تو(تَریٰ اَعْیُنَھُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّ مْعِ

'' ان کی آنکھو ں سے بیساختہ آ نسو جا ری ہو جا تے ہیں ''۔

اس بنا پر اہل کتاب کا وہ گر وہ جو حجت تمام ہو جا نے کے بعد بھی اپنے دین پر ڈٹا رہے قرآن کی نظر میں کسی بھی صورت قا بل ستا یش و تعریف نہیں کہا جا ئے گا ۔

انبیاء علیہم السلام کی امتیں

انبیاء علیہم السلام کے عا م طور پر مشتر ک اوصاف کی تحقیق و جستجو کے بعد اب ''انبیاء ''کی قوموں کے بارے میں گفتگو ضروری ہے لیکن بحث کے آ غاز سے پہلے خود اس بحث کے طریقہ و روش سے متعلق چند نکتے بیا ن کردینا مفید ہیں ۔میری نظر میں انبیاء علیہم السلام کی امتو ں کے با رے میں کسی قر آنی تحقیق و جستجو کے دوطریقے ہوسکتے ہیں :

ایک تو یہ کہ مختلف امتو ں سے متعلق آیات کو تفصیل کے ساتھ الگ الگ رکھ کر تحقیق کی جا ئے اور پھر آیات کی تقسیم بندی اور تحقیقی جا ئزے کے بعد ان سے حا صل ہو نے وا لے نتیجو ں کا جا ئزہ لیا جا ئے ۔ تحقیق کا یہ طریقہ طویل گفتگو کا طا لب ہے اور اس مقام پر اس کی گنجا ئش نہیں ہے ۔

دوسرا طریقہ جس کو ہم نے اپنا یا ہے یہ ہے کہ پہلے تو تمام امتو ں کے ما بین بعض مجمو عی اور مشترک موضوعات کو پیش نظر رکھا جا ئے اور پھر قر آ ن کریم کی آیات کی بنیاد پر ان کا جا ئزہ لیا جا ئے ۔

انبیاء علیہم السلام کی امتوں کے با رے میں قر آ ن کریم سے ایک تو اس نکتہ کا پتہ چلتا ہے کہ ان تمام قو موں میں ہر ایک نے اپنے پیغمبر کے ساتھ کسی نہ کسی طرح مخا لف مو قف اپنایا اور ان کا مقا بلہ کر نے کے لئے اٹھ کھڑ ے ہو ئے ہیں بعض آیات اس بات کی شہا دت دیتی ہیں کہ تمام الٰہی انبیاء کو ان کی امتو ں نے جھٹلایا ہے ۔ اس تا ریخی حقیقت کو دیکھ کر جس کی قر آن کریم نے تا ئید فر ما ئی ہے چند سوا ل پیدا ہو تے ہیں ،کیا ایک قوم کے تمام افراد یکساں طور پر ایک دو سرے کے ہمراہ ہو کر اپنے پیغمبر سے مقا بلہ کے لئے اٹھ کھڑے ہو تے یا شرو ع میں معا شرہ کے مخصوص افراد مخا لفت کا پرچم بلند کر تے اور اس کے بعد دو سرے گر وہ ان سے آکر مل جا یا کر تے تھے ۔

اس حقیقت کے پیش نظر کہ انبیاء علیہم السلام کی دعوت انسانی فطرت کے مطابق ہوا کر تی تھی اور دین اسلام (اپنے عام معنی کے لحا ظ سے )چو نکہ تمام انبیاء علیہم السلام کا دین ہے اور دین فطرت ہے