تجر بہ کی ر ا ہ
یعنی اس نا تو ا نی کو تجر بہ کے ذ ر یعہ اورحو ا س و عقل کی مد د سے ہم اس تفصیل کے ساتھ ثا بت کر سکتے ہیں کہ ہز ا ر وں سا ل ہو گئے کہ ا نسا ن روئے ز مین پر پیدا ہو ا اور زند گی بسر کر رہا ہے ۔ بہت زیا دہ قد یم ز ما نہ سے کو ئی دقیق ا طلا ع دستیا ب نہیں ہے لیکن تقریبا دو ہزا ر پا نچ سو سال پہلے تک انسا نی ہا تھو ں کی مر تب کر دہ تا ریخ اور افکا ر و نظر یات کتا بی شکلو ں میں مو جو د ہیں جو اس با ت کی نشا ند ہی کر تی ہیں کہ دا نش وروں نے بڑ ی زحمتو ں اور کو ششو ں سے کا م لیکر اپنے حوا س اور عقل سے استفا د ہ کر تے ہو ئے مختلف مسائل کو سمجھا ہے اور ان کو علمی مسا ئل ، حقوق و فرائض کے قو انین ،اخلا قی اصول اور اسی طرح کے دو سر ے مسائل کی صور ت میں بیا ن کیا ہے سا ئنسی علو م کے میدان میں روز بہ روز کا فی تر قی ہو ئی ہے اورآج ان ہی دانش وروں کی تحقیقا ت کے سایہ میں مادی دنیا کے بہت سے لا معلو م حقا ئق ہما رے لئے کشف ہو چکے ہیں اور ہم آسا نی سے ان کو پہچا ن سکتے ہیں اور ا ن میں اکثر مسا ئل اتنے واضح روشن اور قا بل فہم ہیں کہ ان مسا ئل میں بہت کم اختلا ف واقع ہو تا ہے لیکن عملی مسا ئل میں ''زند گی بسر کرنے کے طور طر یقہ'' معیا ر و اقدا ر اور ما دی دنیا سے ما فوق متا فیز یک یاالٰہیا ت کے مسا ئل میں مسئلہ اسکے برعکس ہے بہت سے انسا نی معا شروں میں بے پنا ہ مبہم مسا ئل مو جو د ہیں اور شاید یہ کہا جا سکتا ہے کہ آ ج کے اکثر علمی حلقے مادیت سے ما فوق ' الٰہیا ت کے مسائل کو کو ئی اہمیت نہیں دیتے کیو نکہ وہ ان کو حل کر نے سے عا جز ہیں ۔
لیکن ہما ری بحث کی ا ساس وبنیاد ان علوم پر قا ئم ہے جو رو ش و ر فتا ر اور اخلا قی اقدا ر و معیا را ت سے تعلق رکھتے ہیںکہ انسا ن کو اپنی زند گی میں کس طرح کام کر نا چا ہئے اور وہ د وسر ے انسا نوں کے سا تھ ا پنے روا بط کس طرح استو ار کرے ؟ و غیر ہ ۔۔۔
یہ مسا ئل انسانوں کے در میان ہمیشہ موضو ع بحث رہتے ہیں اور ان مسا ئل کو حل کر نے میں بہت زیا دہ فکری تو ا نا ئیا ں صر ف کی گئی ہیں لیکن جیسا کہ ہما ر ے علم میں ہے تا ر یخ کے کسی بھی مر حلہ میں دانشمند وں کے افکا ر ان مسا ئل میں نہ صر ف متحد اور یکسا ں نہیں ہو سکے بلکہ ان میں روز بہ روز اختلاف بڑھتا ہی گیا ہے آج جبکہ انسان علم ودانش کے بہت سے علمی مدارج طے کر چکا ہے صاف دکھا ئی دیتا ہے کہ ماہرین ہمیشہ زند گی بسر کر نے کے کچھ قوانین بنا تے ہیں لیکن جلد ہی معمو لی غور و فکر کے بعد ان قوانین کی خرابی ان پر ظاہر ہو جا تی ہے