لیکن شیعہ استعماری فرقوں کی تائید و تصدیق نہیں کرتے ہیں، جیسے بہائیت ، بابیت اور قادیانی یا اس کی مانند دوسرے فرقے ، بلکہ شیعہ ان کی مخالفت کرتے ہیں ، اور ان سے محاربہ کرتے ہیں اور ان سے ہر قسم کے رابطہ کو حرام قرار دیتے ہیں ۔
شیعہ ( بعض اوقات، نہ کہ ہمیشہ ) تقیہ کرتے ہیں ، جس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے مذہب اور عقیدہ کو (کسی سبب کی بناپر) پوشیدہ کیا جائے ، اور یہ تقیہ نص قرآنی کے مطابق ایک جائز امر ہے ، اور اس پر تمام اسلامی مذاہب عمل کرتے ہیں البتہ جب کسی دشمن کے درمیان پھنس جائے(اور اظہار عقیدہ کی صورت میں یقینی طور پر خطرہ موجودہو) تو تقیہ کیا جاسکتا ہے ،اور یہ دو سبب کی بنا پرہوتا ہے :
۱۔ اپنی جان کی حفاظت کی خاطر تاکہ اس کا خون رائیگاں نہ بہہ جائے ۔
۲۔وحدت مسلمین باقی رہے ، اور ان کے درمیان اختلاف و افتراق پیدا نہ ہو۔
۳۸:اختلاف و تفرقہ کا نقصان
۳۸۔ شیعہ فرقہ سمجھتا ہے کہ آج مسلمانوں کے پیچھے رہ جانے کا سبب فکری ، ثقافتی ، علمی اور ٹکنالوجی کے میدان میں ان کا آپس میںاختلاف و تفرقہ ہے، اور اس کا علاج یہ ہے کہ خود مسلمان مرد اور عورتوںکے شعور کو بلند کیا جائے اوران کی فکری، ثقافتی اور علمی سطح کی ترقی کیلئے علمی مراکزقائم کئے جائیں ، جیسے یونیورسٹیاں،مدارس ،ادارے، اور جدید علوم کے نتائج اور تجربات سے اقتصادی ،آباد کاری ، صنعت و حرفت کی مشکلات کو رفع کیا جائے، اور مسلمانوں کو میدان عمل اور خوشحال زندگی کی سرگرمیوں میں لانے کیلئے ان کے درمیان اطمینان و وثوق کی فضا پیدا کی جائے ، تاکہ ان میں استقلال اور خود اعتمادی پیدا ہوسکے اور دوسروں کی خوش آمد اوران کی اتباع سے محفوظ رہیں ، اسی لئے شیعہ حضرات جہاں سے بھی گزرے اور جس جگہ سکونت اختیار کی وہاں انھوں نے علمی اور تعلیمی مرکزوں کی بنیاد رکھی، اور مختلف علمی میدانوں میں ان کے ماہرین کی تربیت کیلئے ادارے قائم کئے ،اسی طرح انھوں نے ہر ملک اور شہر کی یونیورسٹیوں اور دینی مدارس میں داخلے لئے جس کے نتیجے میں وہاں سے زندگی کے ہر شعبہ میں اعلی درجہ کے علماء اور اہل فن تعلیم سے فارغ ہوئے ، اور جس کے بعد انھوں نے باقاعدہ علمی مرکزوں تک رسائی حاصل کی اور قابل قدر خدمات چھوڑیں ۔