20%

قتیل شفائی

سلام اس پر کہ سب انسانیت جس سے شناسا ہے

پسر ہے جو علی کا اور محمّد کا نواسہ ہے

٭

تضاداتِ مشیت دیکھئے، اس کے حوالے سے

جو اپنی ذات میں ہے اک سمندر، اور پیاسا ہے

٭

برہنہ سر، لٹی املاک اور کچھ راکھ خیموں کی

مدینے کے سفر کا بس اتنا سا ہی اثاثہ ہے

٭

علی اصغر تکے جاتے ہیں اس عالم کو حیرت سے

نہ لوری پیاری امّاں کی، نہ بابا کا دلاسہ ہے

٭

کسی نے سر کٹایا اور بیعت کی نہ ظالم کی

سنی تھی جو کہانی، اس کا اتنا سا خلاصہ ہے

٭

نہ مانگا خوں بہا اپنا خدا سے روزِ محشر بھی

مگر نانا کی امّت کے لیے ہاتھوں میں کاسہ ہے

٭