20%

غنیم کی سرحدوں کے اندر

پروین شاکر

زمینِ نا مہرباں پہ جنگل کے پاس ہی

شام پڑ چکی ہے

ہوا میں کچے گلاب جلنے کی کیفیت ہے

اور ان شگوفوں کی سبز خوشبو

جو اپنی نوخیزیوں کی پہلی رتوں میں

رعنائیِ صلیبِ خزاں ہوئے

اور بہار کی جاگتی علامت ہوئے ابد تک

جلے ہوئے راکھ خیموں سے کچھ کھلے ہوئے سر

ردائے عفت اڑھانے والے

بریدہ بازو کو ڈھونڈتے ہیں

بریدہ بازو کہ جن کا مشکیزہ

ننھے حلقوم تک اگرچہ پہنچ نہ پایا

مگر وفا کی سبیل بن کر

فضا سے اب تک چھلک رہا ہے

برہنہ سر بیبیاں ہواؤں میں سوکھے پتوں

کی سرسراہٹ پہ چونک اٹھتی ہیں

بادِ صرصر کے ہاتھ سے بچنے

والے پھولوں کو چومتی ہیں

چھپانے لگتی ہیں اپنے دل میں