ثمینہ راجہ
ہے آشنائے رازِ صدائے غمِ حسین
بادِ صبا ہے نوحہ سرائے غمِ حسین
٭
ٹھہرا ہوا ہے آنکھ میں اک ماہِ سالِ نوَ
چلنے لگی ہے دل میں ہَوائے غمِ حسین
٭
اک ایک نقشِ پا جو کھِلا ہے مثالِ گُل
ہو کر گئے ہیں آبلہ پائے غمِ حسین
٭
بے پردہ کب تھیں بیبیاں بازارِ شام میں
ڈھانپے ہوئے تھی ان کو ردائے غمِ حسین
٭
کیا غم ہے جو دعا کی طرح ہے زبان پر
غم ہو کوئی نہ تم کو سوائے غمِ حسین
٭
دل گیر ہم جفائے زمانہ سے گر نہیں
یہ خندہ رُوئی بھی ہے عطائے غمِ حسین
٭