20%

ثمینہ راجہ

ہے آشنائے رازِ صدائے غمِ حسین

بادِ صبا ہے نوحہ سرائے غمِ حسین

٭

ٹھہرا ہوا ہے آنکھ میں اک ماہِ سالِ نوَ

چلنے لگی ہے دل میں ہَوائے غمِ حسین

٭

اک ایک نقشِ پا جو کھِلا ہے مثالِ گُل

ہو کر گئے ہیں آبلہ پائے غمِ حسین

٭

بے پردہ کب تھیں بیبیاں بازارِ شام میں

ڈھانپے ہوئے تھی ان کو ردائے غمِ حسین

٭

کیا غم ہے جو دعا کی طرح ہے زبان پر

غم ہو کوئی نہ تم کو سوائے غمِ حسین

٭

دل گیر ہم جفائے زمانہ سے گر نہیں

یہ خندہ رُوئی بھی ہے عطائے غمِ حسین

٭