نقاش کاظمی
کوئی چراغ تخیل نہ میری راہ میں رکھ
بس اک سلام کا گوہر میری کلاہ میں رکھ
٭
اگرچہ تو کسی سچائی کا مورخ ہے
یزید عصر کو بھی دفتر سپاہ میں رکھ
٭
بکھیر صفحۂ قرطاس پر لہو کے حروف
قلم سنبھال کے مت دل کی خانقاہ میں رکھ
٭
سمجھ سکے جو شہیدان حق کی تاجوری
جبین عجز کو تو خاک پائے شاہ میں رکھ
٭
علی کے سجدۂ آخر سے حلق اصغر تک
ہر ایک تیر ستم مرکز نگاہ میں رکھ
٭
وہی امام زماں جو ہیں سب پہ سایہ فگن
انہیں کے سایہ دستار کی پناہ میں رکھ
٭
مجھے وہ حریت فکر بھی دے حُر کی طرح
پھر اُس کے بعد اُسی لشکر و سپاہ میں رکھ
٭