20%

نقاش کاظمی

کوئی چراغ تخیل نہ میری راہ میں رکھ

بس اک سلام کا گوہر میری کلاہ میں رکھ

٭

اگرچہ تو کسی سچائی کا مورخ ہے

یزید عصر کو بھی دفتر سپاہ میں رکھ

٭

بکھیر صفحۂ قرطاس پر لہو کے حروف

قلم سنبھال کے مت دل کی خانقاہ میں رکھ

٭

سمجھ سکے جو شہیدان حق کی تاجوری

جبین عجز کو تو خاک پائے شاہ میں رکھ

٭

علی کے سجدۂ آخر سے حلق اصغر تک

ہر ایک تیر ستم مرکز نگاہ میں رکھ

٭

وہی امام زماں جو ہیں سب پہ سایہ فگن

انہیں کے سایہ دستار کی پناہ میں رکھ

٭

مجھے وہ حریت فکر بھی دے حُر کی طرح

پھر اُس کے بعد اُسی لشکر و سپاہ میں رکھ

٭