سوئے کربلا
شفیق مراد
ظلمتوں کی بدلیاں چھائی ہوئی ہیں ہر طرف
قافلے کوفے کی جانب آج کیوں جاتے نہیں
ہو رہا ہے آج بھی فتووں کا ہر سو کاروبار
آج بھی سوچوں پہ پہرہ ہے کسی کی سوچ کا
آج بھی انصاف کی باتیں پرانی ہو گئیں
آج پھر ہم کو ضرورت ہے علی کی آل کی
آج پھر پیدا کرو روحِ حُسینی قلب میں
کربلا کا سو سہارا باندھ کر سر پہ کفن
قافلوں کو لے چلو کوفے کی جانب آج پھر
ظلمتوں کی بدلیاں چھائی ہوئی ہیں ہر طرف
قافلے کوفے کی جانب آج کیوں جاتے نہیں
٭٭٭