اختر عثمان
اشک نے چھوڑ دی پلک ، نذر ِ حُسین ہو گیا
لو مری لاج رہ گئی ، لو مرا بَین ہو گیا
٭
بیتِ نبی سے شاہ یوں بیتِ الٰہ کو گئے
روح تڑپ تڑپ اُٹھی ، دل حرمین ہو گیا
٭
میں نے کہا شہا ! اگر عِلم کا اِذن ہو سکے!۔
پھر جو وہ خشک لب ہِلے ، عین بہ عین ہو گیا
٭
بزم ِ عزا کے کفش بَر! تیری عجب نشست ہے
تُو کہ زمین کے لئے زینت و زَین ہو گیا
٭
ماتم ِ شاہِ کربلا کم تو نہیں نماز سے
ہاتھ اُٹھے تو یہ عمل رفع ِ یدین ہو گیا
٭
مجھ سے کہا گیا کہ اب جاؤ پئے مبارزت
جی میں وہ لَو اُتر گئی ، روح کو چین ہو گیا
٭